Monday, August 10, 2015

اسلامی ریاست میں شاتمِ رسولؐ ذمی کی پوزیشن

سوال: راقم نے پچھلے دنوں آپ کی تصنیف الجہاد فی الاسلام کا مطالعہ کیا۔ آپ نے تحریر فرمایا ہے کہ: ''ذمی خواہ کیسے ہی جرم کا ارتکاب کرے اس کا ذمہ نہیں ٹوٹتا، حتیٰ کہ جزیہ بند کردینا، مسلمانوں کو قتل کرنا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کرنا یا کسی مسلمان عورت کی آبروریزی کرنا، اس کے حق میں ناقضِ ذمہ نہیں ہے۔ البتہ صرف دو صورتیں ایسی ہیں کہ جن میں عقدِ ذمّہ باقی نہیں رہتا: ایک یہ کہ وہ دارالاسلام سے نکلے اور دشمنوں سے جاملے، دوسرے یہ کہ حکومتِ اسلامیہ کے خلاف علانیہ بغاوت کر کے فتنہ و فساد برپا کرے''۔

میری تحقیق یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی سے ذمّی کا عقدِ ذمہ ٹوٹ جاتا ہے۔ آپ نے اپنی راے کی تائید میں فتح القدیر ، ج۴، اور بدائع،ص ۱۱۳ کا حوالہ دیا ہے لیکن دوسری طرف علامہ ابن تیمیہؒ نے الصارم المسلول علٰی شاتم الرسول کے نام سے ایک مستقل رسالہ لکھا ہے.... حضرت علیؓ کی روایت ہے کہ ایک یہودیہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف بدزبانی کرتی رہتی تھی ۔ایک شخص نے اس کا گلا گھونٹا، یہاں تک کہ وہ مرگئی۔ نبی ؐ نے اس کے خون کو رائیگاں قرار دے دیا(ابوداؤد)۔ ایک مقامی عالم نے اخبار اہلِ حدیث (سوہدرہ) میں آپ کی اس راے کے خلاف ایک مضمون 'مولانا مودودی کی ایک غلطی' شائع کیا ہے اور متعدد علما کے فتاویٰ درج کیے ہیں۔
جواب: یہ مسئلہ مختلف فیہ ہے۔ اس میں دوسری طرف بھی علما کا ایک بڑا گروہ ہے اور اس کے پاس بھی دلائل ہیں۔ اصل اختلاف اس بات میں نہیں ہے کہ جزیہ نہ دینا، یا سبِّ نبی صلی اللہ علیہ وسلم یا ہتکِ مسلّمات قانونی جرم مستلزم سزا ہیں یا نہیں، بلکہ اس امر میں ہے کہ: 'یہ جرائم آیا قانون کے خلاف جرائم ہیں یا دستورِ مملکت کے خلاف؟' ایک جرم وہ ہے جو رعیت کا کوئی فرد کرے تو صرف مجرم ہوتا ہے۔ دوسرا جرم وہ ہے جس کا ارتکاب وہ کرے تو سرے سے رعیت ہونے ہی سے خارج ہوجاتا ہے۔ حنفیہ یہ کہتے ہیں کہ: ذمّی کے یہ جرائم پہلی نوعیت کے ہیں۔ بعض دوسرے علما کے نزدیک: 'ان کی نوعیت دوسری قسم کے جرائم کی سی ہے'۔ یہ ایک دستوری بحث ہے جس میں دونوں طرف کافی دلائل ہیں۔ اخبار اہل حدیث میں جن صاحب نے مضمون لکھا ہے، انھوں نے انصاف نہیں کیا کہ اسے صرف مودودی کی غلطی قرار دیا۔ یہ اگر غلطی ہے تو سلف میں بہت سے اس کے مرتکب ہیں۔ مودودی غریب کا تو صرف یہ قصور ہے کہ [وہ] کسی مسئلے میں مسلکِ حنفی کی تائید کرتا ہے تو اہلِ حدیث سے گالیاں کھاتا ہے اور کسی میں اہلِ حدیث کی تائید کرتا ہے تو حنفی اس کے پیچھے پڑ جاتے ہیں۔

60 سال پہلے

 

( ترجمان القرآن، جولائی ۱۹۵۵ء،ص ۶۱۔۶۳)

 

No comments: