Saturday, July 19, 2014

Fazaa'il wa Manaaqib | Khalifa-e-Awwal, Sayyiduna Siddiq-e-Akbar (Radi Allahu Anhu) [URDU]



https://scontent-a-cdg.xx.fbcdn.net/hphotos-ash2/t1.0-9/230542_10150189567360334_5958159_n.jpg

علمائے اہلسنت کا اس امر پر اجماع اور اتفاق ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ ، انکے بعد حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ ، پھر حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ اور اسکے بعد حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ ، انکے بعد عشرہ مبشرہ کے دیگر حضرات رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین، پھر اصحابِ بدر رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین، پھر باقی اصحابِ اُحد رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین انکے بعد بیعتِ رضوان والے اصحاب رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین اور انکے بعد دیگر اصحابِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمام لوگوں سے افضل ہیں۔ (تاریخ الخلفاء: ١٠٨)

حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کو سب سے پہلے اسلام لانے کا شرف حاصل ہے۔ بعض کے نزدیک حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ سب سے پہلے ایمان لائے ہیں۔ امام اعظم ابوحنیفہ رضی اللہ تعالی عنہ نے اس طرح کے مختلف اقوال میں یوں تطبیق کی ہے کہ مردوں میں سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ ، عورتوں میں حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا اور بچوں میں سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ کو سب سے پہلے ایمان لانے کا اعزاز حاصل ہے۔

تمام علماء کا اس پر اتفاق ہے کہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ قبولِ اسلام کے بعد سے آقا و مولیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال مبارک تک ہمیشہ سفر وحضر میں آپ کے رفیق رہے بجز اس کے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم یا اجازت سے آپ کے ساتھ نہ رہ سکے ہوں۔

آپ تمام صحابہ کرام میں سب سے زیادہ سخی تھے۔آپ نے کثیر مال خرچ کر کے کئی مسلمان غلام آزاد کرائے۔ ایک موقع پر سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا، ابوبکر کے مال نے مجھے جتنا نفع دیا اتنا کسی کے مال نے نہیں دیا۔ اس پر حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ نے روتے ہوئے عرض کی، ''میرے آقا! میں اور میرا مال سب آپ ہی کا ہے''۔

تمام صحابہ کرام میں آپ ہی سب سے زیادہ عالم تھے۔ آپ سے ایک سوبیالیس احادیث مروی ہیں حالانکہ آپ کو بکثرت احادیث یاد تھیں۔ قلتِ روایت کا سبب یہ ہے کہ احتیاط کے پیشِ نظر آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا عمل یا اس سے حاصل شدہ مسئلہ بیان فرمایا کرتے۔ آپ سب سے زیادہ قرآن اوردینی احکام جاننے والے تھے،اسی لیے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آپ کو نمازوں کا امام بنایا تھا۔آپ اُن خاص صحابہ میں سے تھے جنہوں نے قرآن کریم حفظ کیا تھا۔

حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ قرآن مجید کے سلسلے میں سب سے زیادہ اجروثواب حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کو ملے گا کیونکہ سب سے پہلے قرآن کریم کتاب کی صورت میں آپ ہی نے جمع کیا۔

حضرت ابن مسیب رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں، حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وزیرِ خاص تھے چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ سے تمام امور میں مشورہ فرمایا کرتے تھے۔ آپ اسلام میں ثانی، غار میں ثانی، یومِ بدر میں سائبان میں ثانی اور مدفن میں بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ثانی ہیں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آپ پر کسی کو فضیلت نہیں دی۔

آپ کا سب سے بڑا کارنامہ مرتدوں سے جہاد اور ان کے فتنے کا مکمل انسداد ہے۔ یمامہ، بحرین اور عمان وغیرہ کے مرتدین کی سرکوبی کے بعد اسلامی افواج نے ایلہ، مدائن اور اجنادین کے معرکوں میں فتح حاصل کی۔آپ کی خلافت کی مدت دو سال سات ماہ ہے۔

سیدنا ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ نے وصال کے وقت اپنی صاحبزادی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا، یہ اونٹنی جس کا ہم دودھ پیتے ہیں اور یہ بڑا پیالہ جس میں ہم کھاتے پیتے ہیں اور یہ چادر جو میں اوڑھے ہوئے ہوں، ان تین چیزوں کے سوا میرے پاس بیتُ المال کی کوئی چیزنہیں۔ ان چیزوں سے ہم اسوقت تک نفع لے سکتے تھے جب تک میں امورِ خلافت انجام دیتا تھا۔ میرے انتقال کے بعد تم ان چیزوں کو حضرت عمر کے پاس بھیج دینا۔ آپ کے وصال کے بعد جب یہ چیزیں سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ کو واپس کی گئیں تو انہوں نے فرمایا، اللہ تعالیٰ ابوبکر پر رحم فرمائے۔ انہوں نے اپنے جانشین کو مشقت میں ڈال دیا۔

امام شعبی رحمہ اللہ نے روایت کیاہے کہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کو اﷲ تعالیٰ نے چار ایسی خصوصیات سے متصف فرمایا جن سے کسی اور کو سرفراز نہیں فرمایا۔

اوّل: آپ کا نام صدیق رکھا۔
دوم : آپ غار ثور میں محبوبِ خدا اکے ساتھی رہے۔
سوم: آپ ہجرت میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے رفیقِ سفر رہے۔
چہارم: حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی حیات مبارکہ میں ہی آپ کو صحابہ کی نمازوں کا امام بنا دیا۔


آپ کی ایک اورخصوصیت یہ ہے کہ آپ کی چار نسلوں نے صحابی ہونے کا شرف پایا۔ آپ صحابی، آپ کے والد ابو قحافہ صحابی ، آپ کے بیٹے عبدالرحمٰن صحابی اور انکے بیٹے ابو عتیق محمد بھی صحابی رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین۔   (ماخوذ از تاریخ الخلفاء)

https://scontent-a-cdg.xx.fbcdn.net/hphotos-ash2/t1.0-9/226278_10150189559105334_3771857_n.jpg

فضائلِ سیدنا ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ ، قرآن میں

1۔ ثَانِیَ اثْنَیْنِ اِذْ ہُمَا فِی الْغَارِ اِذْ یَقُوْلُ لِصَاحِبِہ لاَ تَحْزَنْ اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا فَاَنْزَلَ اللّٰہُ سَکِیْنَتَہ، عَلَیْہِ۔ (التوبۃ:٤٠)

'' آپ دو میں سے دوسرے تھے ، جب وہ دونوں (یعنی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ)غار میں تھے ، جب (حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے ےار سے فرماتے تھے ، غم نہ کر ، بیشک اﷲ ہمارے ساتھ ہے تو اﷲ نے اس پر اپنی تسکین نازل فرمائی''۔ (کنزالایمان)

صدرُالافاضل مولانا سید محمد نعیم الدین مرادآبادی رحمہ اللہ لکھتے ہیں ،

''حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کی صحابیت اس آیت سے ثابت ہے۔ حسن بن فضل نے فرمایا، جو شخص حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ کی صحابیت کا انکار کرے وہ نص قرآنی کا منکر ہو کر کافر ہوا''۔ (تفسیربغوی، تفسیر مظہری، تفسیر خزائن العرفان)

مرزا مظہر جانِ جاناں رحمہ اللہ '' اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا'' کی تفسیر میں فرماتے ہیں،

'' حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ کے لیے ےہی فضیلت کافی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے لیے بغیر کسی فرق کے، اﷲ تعالیٰ کی اس معیت کو ثابت کیا جو انہیں خود حاصل تھی ۔ جس نے سیدنا ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کی فضیلت کا انکار کیا اس نے اس آیت کریمہ کا انکار کیا اور کفر کا ارتکاب کیا''۔(تفسیر مظہری)

''سَکِیْنَتَہ، عَلَیْہِ'' کی تفسیر میں حضرت عبداﷲبن عباس رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ،

'' یہ تسکین حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ پر نازل ہوئی کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ تو سکینت ہمیشہ ہی رہی تھی''۔(ازالۃالخفاء ج ٢:١٠٧، تاریخ الخلفاء : ١١١)

2۔ ابن عساکررحمہ اللہ نے روایت کیا ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سلسلے میں حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کے سوا تمام مسلمانوں پر عتاب فرمایا ہے جیسا کہ مذکورہ بالا آیت کریمہ کے آغاز میں ہے۔
 
اِلَّا تَنْصُرُوْہُ فَقَدْ نَصَرَہُ اللّٰہُ اِذْ اَخْرَجَہُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا۔ ( التوبۃ: ٤٠)
'' اگر تم محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدد نہ کرو تو بیشک اﷲ نے انکی مدد فرمائی، جب کافروں کی شرارت سے انہیں باہر تشریف لے جانا ہوا(ہجرت کے لیے)''۔(کنزالایمان)

امام سیوطی رحمہ اللہ فرماتے ہیں، یہ آیت اس دعوے کی دلیل ہے کہ رب تعالیٰ نے سیدنا ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کو اس عتاب سے مستثنیٰ فرمایا ہے۔ (تاریخ الخلفاء: ١١٣)

3۔ حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ جب آیت اِنَّ اللّٰہَ وَ مَلٰئِکَتَہ، یُصَلُّوْنَ عَلَی النَّبِیِّ نازل ہوئی تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے عرض کی ، یا رسول اﷲا! اﷲ تعالیٰ جو فضل وشرف بھی آپ کو عطا فرماتا ہے تو ہم نیازمندوں کو بھی آپ کے طفیل میں نوازتاہے۔ اسی وقت اﷲتعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ (تفسیر خزائن العرفان، تفسیر مظہری، تاریخ الخلفاء: ١١٢)

ہُوَ الَّذِیْ یُصَلِّیْ عَلَیْکُمْ وَ مَلٰئِکَتُہ، لِیُخْرِجَکُمْ مِنَ الظّلُمٰتِ اِلَی النُّوْرِ وَکَانَ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَحِیْمًا (الاحزاب: ٤٣)
''وہی ہے کہ درود بھیجتاہے تم پر وہ اور اسکے فرشتے کہ تمہیں اندھیریوں سے اجالے کی طرف نکالے اور وہ مسلمانوں پر مہربان ہے''۔ (کنزالایمان)

4۔ وَالَّذِیْ جَاءَ بِالصِّدْقِ وَصَدَّقَ بِہ اُولٰئِکَ ہُمُ الْمُتَّقُوْنَ۔ (الزمر:٣٣) 
'' اور وہ جو یہ سچ لے کر تشریف لائے اور وہ جنہوں نے انکی تصدیق کی، یہی ڈر والے ہیں''۔(کنزالایمان از اعلیٰ حضرت محدث بریلوی رحمۃ اللہ علیہ)

بزاروابن عساکررحمہما اللہ نے اس آیت کے شان نزول کے متعلق روایت کی ہے کہ ایک مرتبہ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے اس طرح ارشادفرمایا، ''قسم ہے اُس رب کی جس نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو رسول بناکر بھیجا اور حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ سے اس رسالت کی تصدیق کرائی''۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ (تاریخ الخلفاء:١١٢)

حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ حق لیکر آنے والے سے مراد رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور تصدیق کرنے والے سے مراد حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ دیق رضی اللہ تعالی عنہ ہیں۔ حضرت ابوہریرہص سے بھی یہی مروی ہے۔ (تفسیرکبیر، تفسیر مظہری، ازالۃ الخفاء ج٢:٢٢٥)

شیعہ مذہب کی مستند تفسیر مجمع البیان میں بھی یہی تفسیر منقول ہے۔ (ج٨:٤٩٨)

5۔ وَلِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبّہ جَنَّتٰنِ (الرحمٰن:٤٦)
''اور جو اپنے رب کے حضور کھڑے ہونے سے ڈرے،اسکے لیے دو جنتیں ہیں''۔ (کنزالایمان از اعلیٰ حضرت امام احمد رضا محدث بریلوی رحمۃ اللہ علیہ)

ابن ابی حاتم رحمہ اللہ نے روایت کی ہے کہ یہ آیت حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کے حق میں نازل ہوئی۔ (تفسیرمظہری، تفسیر درمنثور)


https://scontent-a-cdg.xx.fbcdn.net/hphotos-ash2/t1.0-9/227893_10150189559360334_636822_n.jpg

6۔ وَلاَ یَاْتَلِ اُولُوا الْفَضْلِ مِنْکُمْ وَالسَّعَۃِ اَنْ یُّؤْتُوْا اُولِی الْقُرْبٰی وَالْمَسٰکِیْنَ وَالْمُہٰجِرِیْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَلْیَعْفُوْا وَلْیَصْفَحُوْا۔ 
'' اور قسم نہ کھائےں وہ جو تم میں فضیلت والے اور گنجائش والے ہیں قرابت والوں اور مسکینوں اور اﷲ کی راہ میں ہجرت کرنے والوں کو دینے کی ، اور چاہیے کہ معاف کریں اور درگزرکریں۔ (النور:٢٢،کنزالایمان)

یہ آیت حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ کے حق میں نازل ہوئی جب آپ نے ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا پر تہمت لگانے والوں کے ساتھ موافقت کرنے پر اپنے خالہ زاد بھائی مسطح کی مالی مدد نہ کرنے کی قسم کھائی جو بہت نادار و مسکین بدری صحابی تھے۔ آپ نے اس آیت کے نزول پر اپنی قسم کا کفارہ دیا اور انکی مالی مدد جاری فرمائی۔ صدرُالافاضل رقمطراز ہیں ،'' اس آیت سے حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ کی فضیلت ثابت ہوئی، اس سے آپ کی علوشان ومرتبت ظاہر ہوئی کہ اﷲتعالیٰ نے آپکو ابوالفضل (فضیلت والا)فرمایا''۔(تفسیر خزائن العرفان،تفسیر مظہری)

7۔ ایک مرتبہ یہودی عالم فخاص نے سیدنا ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ سے کہا اے ابوبکر! کیا تم یہ گمان کرتے ہو کہ ہمارا رب ہمارے مالوں میں سے قرض مانگتا ہے، مالدار سے قرض وہی مانگتاہے جو فقیر ہو، اگر تم سچ کہتے ہو تو پھر اﷲتعالیٰ فقیر ہے اور ہم غنی ہیں۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ اسکی گستاخانہ گفتگو سن کر غضبناک ہوئے اور اسکے منہ پر زوردار تھپڑ مارا اور فرمایا ، اگر ہمارے اورتمہارے درمیان صلح کا معا ہدہ نہ ہوتا تو میں تیری گردن اڑا دیتا۔ فخاص نے بارگاہ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں جا کر سیدنا ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کی شکایت کی۔ آپ نے اسکی گستاخانہ گفتگو بیان کردی ۔ فخا رضی اللہ تعالی عنہ نے اس کا انکار کردیا تو اﷲتعالیٰ نے سیدنا ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کی تصدیق کرتے ہوئے یہ آیت نازل فرمائی۔

لَقَدْ سَمِعَ اللّٰہُ قَوْلَ الَّذِیْنَ قَالُوْا اِنَّ اللّٰہَ فَقِیْر'' وَّ نَحْنُ اَغْنِیَاءَ۔ (اٰلِ عمران: ١٨١) 
''بیشک اﷲنے سنا جنہوں نے کہا کہ اﷲمحتاج ہے اور ہم غنی''۔ (کنزالایمان)

8۔ وَاتَّبِعْ سَبِیْلَ مِنْ اَنَابَ اِلَیَّ ۔
'' اور اسکی راہ چل جو میر ی طرف رجوع لایا''۔ (لقمٰن: ١٥)

حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ کا ارشاد ہے کہ یہ آیت سیدناابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کے حق میں نازل ہوئی کیونکہ جب وہ اسلام لائے تو حضرت عثمان، طلحہ، زبیر ، سعد بن ابی وقاص، عبدالرحمٰن بن عوف ثنے انکی رہنمائی کے سبب اسلام قبول کیا۔ (تفسیر مظہری)

9۔ لَا یَسْتَوِیْ مِنْکُمْ مَنْ اَنْفَقَ مِنْ قَبْلِ الْفَتْحِ وَقَاتَلَ اُولٰئِکَ اَعْظَمُ دَرَجَۃً مِّنَ الَّذِیْنَ اَنْفَقُوْا مِنْم بَعْدُ وَقَاتَلُوْا وَکُلًّا وَّعَدَ اللّٰہُ الْحُسْنٰی وَاللّٰہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْر (الحدید:١٠)
تم میں برابر نہیں وہ جنہوں نے فتح مکہ سے قبل خرچ اور جہاد کیا، وہ مرتبہ میں ان سے بڑے ہیں جنہوں نے بعد فتح کے خرچ اور جہاد کیا اور ان سب سے اللہ جنت کا وعدہ فرما چکا ، اور اللہ کو تمہارے کاموں کی خبر ہے۔ (کنزالایمان)

یہ آیت حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ دیق رضی اللہ تعالی عنہ کے حق میں نازل ہوئی کیونکہ آپ سب سے پہلے ایمان لائے اور سب سے پہلے اﷲ کی راہ میں مال خرچ کیا۔ (تفسیر بغوی)

قاضی ثناء اﷲرحمہ اﷲ فرماتے ہیں ، یہ آیت اس بات کی دلیل ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ تمام صحابہ سے افضل اور صحابہ کرام تمام لوگوں سے افضل ہیں کیونکہ فضیلت کا دارومداراسلام قبول کرنے میں سبقت لے جانے ، مال خرچ کرنے اورجہاد کرنے میں ہے۔ جس طرح آقا و مولیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ ارشاد گرامی ہے کہ جس نے اچھا طریقہ شروع کیا تو اسے اسکا اجر اور اس پر عمل کرنے والوں کا اجربھی ملے گا جبکہ عمل کرنے والوں کے اجر میں بھی کوئی کمی نہیں کی جائے گی۔ (صحیح مسلم)

علماء کا اس پر اجماع ہے کہ حضرت ابوبکر صسب سے پہلے اسلام لائے اور آپکے ہاتھ پر قریش کے معززین مسلمان ہوئے۔ راہ خدا میں مال خرچ کرنے والوں میں بھی سب سے آگے ہیں۔ کفار سے مصائب برداشت کرنے والوں میں بھی آپ سب سے پہلے ہیں۔ (تفسیر مظہری)

10۔ وَسَیُجَنَّبُہَا الْاَتْقَی O الَّذِیْ یُؤْتِیْ مَالَہ، یَتَزَکّٰیO وَمَا لِاَحَدٍ عِنْدَہ، مِنْ نِّعْمَۃٍ تُجْزٰیO اِلاَّ ابْتِغَاءَ وَجْہِ رَبّہِ الْاَعْلٰیO وَلَسَوْفَ یَرْضٰی O 
''اور اس (جہنم )سے بہت دور رکھا جائے گا جو سب سے بڑا پرہےزگار جو اپنا مال دےتا ہے کہ ستھرا ہو اور کسی کا اس پر کچھ احسان نہےں جس کا بدلہ دیا جائے ، صرف اپنے رب کی رضا چاہتا ہے جو سب سے بلند ہے اور بے شک قریب ہے کہ وہ (اپنے رب سے) راضی ہو گا''۔ (والیل:١٧ تا ٢١،کنزالایمان )

اکثر مفسرین کا اتفاق ہے یہ آیات مبارکہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کی شان میں نازل ہوئیں۔ (تفسیرقرطبی ،تفسیر کبیر ،تفسیرابن کثیر ،تفسیرمظہری)

ابن ابی حاتم رحمہ اللہ نے حضرت عروہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کی ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ نے سات غلاموں کو اسلام کی خاطر آزاد کیا۔اس پر یہ آیات نازل ہوئیں۔ (تفسیر مظہری، تفسیر روح المعانی)

صدرُالافاضل رحمہ اللہ رقمطراز ہیں کہ جب حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ نے حضرت بلال رضی اللہ تعالی عنہ کو بہت گراں قیمت پر خرید کر آزاد کیا تو کفار کو حیرت ہوئی اور انہوں نے کہا ،بلا ل کا ان پر کوئی احسان ہو گا جو انہوں نے اتنی قیمت دے کر خریدا اور آزاد کیا ۔اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور ظاہر فرما دیا گیا کہ حضرت صد یق اکبر کا یہ فعل محض اﷲ تعالیٰ کی رضا کے لیے ہے، کسی کے احسان کا بدلہ نہیں۔ (خزائن العرفان)

قاضی ثناء اﷲ پانی پتی رحمہ اللہ آخری آےت کی تفسیر میں لکھتے ہیں ،''یہ آیت حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کے حق میں اس طرح ہے جس طرح حضور کے حق میں یہ آیت ہے،

وَلَسَوْفَ یُعْطِیْکَ رَبُّکَ فَتَرْضٰی O (تفسیر مظہری )
''اور بےشک قریب ہے کہ تمہارا رب تمہیں اتنا دے گا کہ تم راضی ہو جاؤ گے''۔


https://scontent-a-cdg.xx.fbcdn.net/hphotos-ash3/t1.0-9/228165_10150189559505334_5919751_n.jpg

فضائلِ سیدنا ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ ، احادیث میں

1۔ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا،بیشک اپنی صحبت اورمال کے ساتھ سب لوگوں سے بڑھ کر مجھ پر احسان کرنے والا ابوبکر ہے۔ اگر میں اپنے رب کے سوا کسی کو خلیل بناتا تو ابوبکر کو بناتا لیکن اسلامی اخوت و موّدت تو موجود ہے ۔آئندہ مسجد میں ابوبکر کے دروازے کے سوا کسی کا دروازہ کھلا نہ رکھا جائے۔ (بخاری کتابُ المناقب)

2۔ دوسری روایت میں یہ ہے کہ ابوبکر کی کھڑکی کے علاوہ (مسجد کی طرف کھلنے والی) سب کھڑکیاں بند کر دی جائیں۔ ( صحیح مسلم کتاب فضائل الصحابۃ)

سرکارِ دوعالم انے اپنے وصال سے دو تین دن قبل یہ بات ارشاد فرمائی۔ اس بناء پر شارحین فرماتے ہیں کہ اس حدیث میں سیدنا ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کی خلافت کی طرف اشارہ ہے اور دوسروں کی گفتگو کا دروازہ بند کر دیا گیا ہے۔ (اشعۃ اللمعات)

3۔ حضرت عبدﷲبن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا،اگر میں کسی کو خلیل بناتا تو ابوبکر کو خلیل بناتا لیکن وہ میرے بھائی اور میرے ساتھی ہیں اور تمھارے اِس صاحب کو اﷲ تعالیٰ نے خلیل بنایا ہے۔(مسلم کتاب فضائل الصحابۃ)

خلیل سے مراد ایسا دِلی دوست ہے جس کی محبت رگ وپے میں سرایت کر جائے اور وہ ہر راز پر آگاہ ہو، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایسا محبوب صرف اللہ تعالیٰ کو بنایا۔رب تعالیٰ نے بھی آپ کو اپنا ایسا محبوب وخلیل بنایا ہے کہ آپ کی خلّت سیدنا ابراہیم ں کی خلّت سے زیادہ کامل اور اکمل ہے۔ (اشعۃ اللمعات، ملخصاً)

4۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا، جس وقت ہم غار میں تھے۔ میں نے اپنے سروں کی جانب مشرکوں کے قدم دیکھے تو عرض کی، یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! اگر ان میں سے کسی نے اپنے پیروں کی طرف دیکھا تو وہ ہمیں دیکھ لے گا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا،اے ابوبکر! تمہارا ان دو کے متعلق کیا خیال ہے جن میں کا تیسرا اللہ تعالیٰ ہے۔ (مسلم کتاب فضائل الصحابۃ)

5۔ حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انھیں لشکرِ ذاتِ السلاسل پر امیر بنا کر بھیجا۔ ان کا بیان ہے کہ جب حاضرِ بارگاہ ہوا تو میں نے عرض کی،یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! آپ کو لوگوں میں سب سے زیادہ پیارا کون ہے؟، فرمایا، عائشہ۔ میں عرض گزار ہوا ، مردوں میں سے؟ فرمایا ، اس کے والدِ محترم یعنی ابوبکر۔ میں عرض گزار ہوا کہ پھر کون؟ فرمایا ، عمر۔ پس میں اس ڈر سے خاموش ہو گیا کہ مبادا مجھے سب سے آخر میں رکھیں۔ (بخاری، مسلم)

6۔ حضرت محمد بن حنیفہ رضی اللہ تعالی عنہ کا بیان ہے کہ میں نے اپنے والدِ محترم (حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ ) کی خدمت میںعرض کی،نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد سب سے بہتر آدمی کون ہے؟ فرمایا ، ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ ۔ میں عرض گزار ہوا کہ پھر کون ہے ؟ فرمایا ، عمر رضی اللہ تعالی عنہ ۔ تیسری بارمیں ڈرا کہ کہیں یہ نہ فرمائیں کہ عثمان رضی اللہ تعالی عنہ ، اس لیے میں نے عرض کی کہ پھر آپ ہیں؟ فرمایا ، میں تو مسلمانوں میں سے ایک فرد ہوں۔ (بخاری کتابُ المناقب)

7۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ آقا ومولیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا، تم میں سے آج کون روزہ دار ہے؟ سیدنا ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ نے عرض کی، میں ہوں۔ پھر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا، تم میں سے آج کس شخص نے مسکین کو کھانا کھلایا ہے؟ سیدنا ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ نے عرض کی، میں نے۔ پھر ارشاد ہوا،تم میں سے آج کس شخص نے مریض کی عیادت کی؟ آپ ہی نے عرض کی، میں نے۔ آقا کریم انے فرمایا، جس شخص میں (ایک ہی دن میں)یہ اوصاف جمع ہونگے وہ جنتی ہو گا۔ (مسلم باب فضائل ابی بکر)

8۔ حضرت ابنِ عمررضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں ہم کسی کو ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کے برابر شمار نہیں کیا کرتے تھے، پھر حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کو، پھر حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کو دیگر صحابہ پر فضیلت دیتے اور پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اصحاب میں سے کسی کو دوسرے پر فضیلت نہ دیتے۔ (بخاری کتابُ المناقب)

9۔ انہی سے مروی ہے کہ رحمتِ دوعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیاتِ ظاہری میں ہم کہا کرتے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت میں آپ اکے بعد افضل ترین حضرت ابوبکر ہیں، پھرحضرت عمر، پھر حضرت عثمان رضی اللہ عنہم اجمعین۔ (ترمذی، ابوداؤد)


https://fbcdn-sphotos-b-a.akamaihd.net/hphotos-ak-ash3/t1.0-9/248573_10150189559645334_2337268_n.jpg

10۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے ایک طویل روایت کے آخر میں ہے کہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ نے بارگاہِ رسالت میں عرض کی، یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا کوئی ایسا شخص بھی ہے جس کو جنت کے تمام دروازوں سے جنت میں جانے کے لیے بلایا جائے گا؟ آقا ومولیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا، ہاں اے ابوبکر! مجھے امید ہے کہ تم ایسے ہی لوگوں میں سے ہو۔ (بخاری کتابُ المناقب)

11۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالی عنہ ہمارے سردار، ہمارے بہترین فرد اور رسول اﷲا کو ہم سب سے زیادہ محبوب تھے۔ (ترمذی)

12۔ حضرت ابنِ عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ سے فرمایا،تم غار میں میرے ساتھی تھے اور حوض پر میرے ساتھی ہوگے۔ (ترمذی)

13۔ حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا، کسی قوم کے لئے مناسب نہیں کہ ان میں ابوبکر ہو اور ان کی امامت کوئی دوسرا کرے۔ (ترمذی)

14۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲا نے ہمیں صدقہ کا حکم فرمایا۔ اس وقت میرے پاس کافی مال تھا ، میں نے کہا کہ اگر کسی روز میں حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالی عنہ سے سبقت لے جاسکا تو آج کا دن ہوگا۔ پس میں نصف مال لے کر حاضر ہوگیا۔ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ گھر والوں کے لئے کتنا چھوڑا ہے؟عرض گزار ہوا کہ اس کے برابر۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ اپنا سارا مال لے آئے تو فرمایا ، اے ابو بکر اپنے گھر والوں کے لئے کیا چھوڑا ہے؟ عرض گزار ہوئے ، ان کے لئے اﷲ اور اس کے رسول کو چھوڑ آیا ہوں ۔ میں نے کہا ، میں ان سے کبھی نہیں بڑھ سکتا۔ (ترمذی،ابو داؤد)

15۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا سے روایت ہے کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالی عنہ رسول اﷲا کی بارگاہ میں حاضرہوئے تو آپ نے فرمایا ،تمہیں اﷲ تعالیٰ نے آگ سے آزاد کردیا ہے۔ اس دن سے ان کا نام عتیق مشہور ہو گیا۔ (ترمذی،حاکم)

16۔ حضرت ابنِ عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ انے فرمایا،میں وہ ہوں کہ زمین سب سے پہلے میرے اوپر سے شق ہو گی ، پھر ابوبکر سے، پھر عمر سے، پھر بقیع والوں کے پاس آؤں گا تو وہ میرے ساتھ اٹھائے جائیں گے۔ پھر میں اہلِ مکہ کا انتظار کروں گا ، یہاں تک کہ حرمین کے درمیان حشر کیا جائے گا۔ (ترمذی)

17۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ حضورِاکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا،میرے پاس جبریل آئے تو میرا ہاتھ پکڑا تاکہ مجھے جنت کا وہ دروازہ دکھائیں جس سے میری امت داخل ہوگی۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ نے عرض کی، یا رسول اﷲا! میں چاہتا ہوں کہ میں آپ کے ساتھ ہوتا ، تاکہ اس دروازے کو دیکھتا۔ رسول اﷲا نے فرمایا، اے ابوبکر! تم میری امت میں سب سے پہلے جنت میں داخل ہوگے۔ (ابوداؤد)

18۔حضرت ابو الدرداء رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ سرکارِ دوعالم نورِ مجسم انے فرمایا، انبیاء کے علاوہ سورج کبھی کسی ایسے شخص پر طلوع نہیں ہوا جو ابوبکر سے افضل ہو۔ (الصواعق المحرقۃ:١٠٣، ابونعیم)

19 ۔ حضرت سلیمان بن یسار رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا، اچھے خصائل تین سو ساٹھ ہیں۔ سیدنا ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ نے عرض کی، یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! ان میں سے مجھ میں کوئی خصلت موجود ہے؟ فرمایا، اے ابوبکر ! مبارک ہو۔ تم میں وہ سب اچھی خصلتیں موجود ہیں۔ (الصواعق المحرقۃ:١١٢، ابن عساکر)

20۔ حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ آقا ومولیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا، میری امت پر واجب ہے کہ وہ ابوبکر کا شکریہ ادا کرے اور ان سے محبت کرتی رہے۔ (تاریخ الخلفاء:١٢١،الصواعق المحرقۃ:١١٢، ابن عساکر)


https://scontent-b-cdg.xx.fbcdn.net/hphotos-frc3/l/t1.0-9/250800_10150189558585334_2682232_n.jpg

21۔ حضرت عباس سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا، میں نے جس کو بھی اسلام کی دعوت دی اُس نے پہلے انکار کیا سوائے ابوبکر کے کہ انہوں نے میرے دعوتِ اسلام دینے پر فوراً ہی اسلام قبول کر لیا اور پھر اس پر ثابت قدم رہے۔ (تاریخ الخلفاء:٩٨، ابن عساکر)

22۔ حضرت معاذ بن جبلص سے روایت ہے کہ سیدِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک مسئلہ میں میری رائے دریافت فرمائی تو میں نے عرض کی، میری رائے وہی ہے جو ابوبکر کی رائے ہے۔ اس پر آقا کریم انے فرمایا، اللہ تعالیٰ کو یہ پسند نہیں کہ ابوبکر غلطی کریں۔(تاریخ الخلفاء:١٠٧، ابونعیم، طبرانی)

23۔ حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا سے روایت کیا ہے کہ میں نے آقا و مولیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کی، آپ نے اپنی علالت کے ایام میں حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کو امام بنایا تھا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، نہیں! میں نے نہیں بنایا تھا بلکہ اللہ تعالیٰ نے بنایا تھا(یعنی اللہ تعالیٰ کے حکم سے انہیں امام بنایا تھا)۔ (تاریخ الخلفاء:١٢٦ ، ابن عساکر)

24۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ پاس حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالی عنہ کا ذکر ہوا تووہ روپڑے اور فرمایا، میں چاہتا ہوں کہ میرے سارے اعمال اُن کے ایک دن کے اعمال جیسے یا اُن کی ایک رات کے اعمال جیسے ہوتے۔ پس رات تو وہ رات ہے جب وہ رسول اﷲا کے ساتھ غار کی طرف چلے۔ جب غار تک پہنچے تو عرض گزار ہوئے، خدا کی قسم! آپ اس میں داخل نہیں ہوںگے جب تک میں اس میں داخل نہ ہو جاؤںکیونکہ اگر اس میں کوئی چیز ہے تو اس کی تکلیف آپ کی جگہ مجھے پہنچے۔ پھر وہ داخل ہوئے اور غار کو صاف کیا۔ اس کی ایک جانب سوراخ تھے تو اپنی ازار کو پھاڑ کر انہیں بند کیا۔ دو سوراخ باقی رہ گئے تو انہیں اپنی ایڑیوں سے روک لیا۔ پھر رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں عرض گزار ہوئے کہ تشریف لے آئیے۔ رسول ُاﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اندر داخل ہوئے اور انکی گود میں سرِ مبارک رکھ کر سو گئے۔پس ایک سوراخ میں سے حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ پیر میں ڈنگ مارا گیا تو انہوں نے اس ڈر سے حرکت نہ کی کہ آقا ومولیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیدار ہوجائیں گے لیکن ان کے آنسو رسول اﷲا کے نورانی چہرے پر گر پڑے۔ فرمایا کہ ابو بکر ! کیا بات ہے؟ عرض کیا، میرے ماں باپ آپ پر قربان، مجھے ڈنگ مارا گیا ہے۔ چنانچہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لعابِ دہن لگا دیا تو انکی تکلیف جاتی رہی۔ پھر اس زہرنے عود کیا اور وہی انکی وفات کا سبب بنا۔ اُن کا دن وہ دن ہے کہ جب رسول اﷲا نے وفات پائی تو اس وقت بعض اہلِ عرب مرتد ہو گئے اور کہا کہ ہم زکوٰۃ ادا نہیں کریں گے تو انہوں نے فرمایا ، اگر کوئی اونٹ کا گھٹنا باندھنے کی رسی بھی روکے گا تو میں اس کے ساتھ جہاد کروں گا۔ میں عرض گزار ہوا کہ اے خلیفہ رسول ا! لوگوں سے الفت کیجیے اور ان سے نرمی کا سلوک فرمائیے۔ انہوں نے مجھ سے فرمایا، تم جاہلیت میں بہادر تھے تو کیا اسلام لا کر بزدل ہو گئے ہو؟بے شک وحی منقطع ہو گئی، دین مکمل ہو گیا ، کیا یہ دین میرے جیتے جی بدل جائے گا؟ (مشکوٰۃ)

25۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ کا ارشاد ہے کہ اگر تمام اہلِ زمین کا ایمان ایک پلّہ میں اور سیدنا ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کا ایمان دوسرے پلّہ میں رکھ کروزن کیا جائے تو سیدنا ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کے ایمان کا پلّہ بھاری رہے گا۔ (تاریخ الخلفاء:١٢١، شعب الایمان للبیہقی)

26۔ حضرت عامر بن عبداللہ بن زبیرث سے مروی ہے کہ جب آیت وَلَوْ اَنَّا کَتَبْنَا عَلَیْہِمْ اَنِ اقْتُلُوْا اَنْفُسَکُمْ (ترجمہ:اوراگر ہم اُن پر فرض کردیتے کہ اپنے آپ کو قتل کر دو)نازل ہوئی تو حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ نے عرض کی، یا رسول اللہ! اگر آپ مجھے حکم دیتے کہ میں خودکو قتل کر لوں تو میں خود کو ضرور قتل کر دیتا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، تم نے سچ کہا۔ (تاریخ الخلفاء:١٢٠، ابن ابی حاتم)

27۔ حضرت ابوسعید خُدری رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منبر پر تشریف فرما ہوئے اور فرمایا، اللہ تعالیٰ نے ایک بندے کو اس کا اختیار دیاکہ وہ دنیا کی نعمتیں پسند کر لے یا آخرت کی نعمتیں جو اللہ کے پاس ہیں تو اُس نے آخرت کی نعمتیں پسند کر لیں ۔ یہ سنتے ہی حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ رونے لگے اور عرض کی، یارسول اللہ!کاش ہمارے ماں باپ آپ پر قربان ہو جائیں۔ ہمیں تعجب ہوا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کسی شخص کا ذکر فرمارہے ہیں اور یہ کہہ رہے ہیں، آپ پر ہمارے ماں باپ قربان ہو جائیں۔ بعد میں ہمیں علم ہوا کہ وہ صاحبِ اختیار بندے خود حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی تھے۔ پس حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ ہم سب سے زیادہ علم والے تھے۔ (بخاری، مسلم)

28۔ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے لوگوں سے پوچھا ، یہ بتاؤ کہ سب سے زیادہ بہادر کون ہے؟ لوگوں نے کہا، آپ۔ سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا، نہیں !سب سے زیادہ بہادر حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ ہیں۔ سنو! جنگِ بدر میں ہم نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے ایک سائبان بنایا تھا۔ ہم نے آپس میں مشورہ کیا کہ اس سائبان کے نیچے حضور کے ساتھ کون رہے گا ، کہیں ایسا نہ ہو کہ کوئی مشرک آقاومولیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر حملہ کر دے۔ خدا کی قسم! ہم میں سے کوئی بھی آگے نہیں بڑھا تھا کہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ ہاتھ میں برہنہ تلوار لیے ہوئے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس کھڑے ہوگئے اور پھر کسی مشرک کو آپ کے پاس آنے کی جرأت نہ ہو سکی۔ اگر کوئی ناپاک ارادے سے قریب بھی آیا تو آپ فوراً اس پر ٹوٹ پڑے ۔ اس لیے آپ ہی سب سے زیادہ بہادر تھے۔ (تاریخ الخلفاء: ١٠٠،مسند بزار)


https://fbcdn-sphotos-h-a.akamaihd.net/hphotos-ak-prn1/t1.0-9/249199_10150188659640334_7155888_n.jpg

یعنی اُس افضل ُ الخلق بعد الرُسُل؛ ثانی اثنین ِ ہجرت پہ لاکھوں سلام

— — —
مصنف: حضرت علامہ سید شاہ تراب الحق قادری مدظلہ عالی
کتاب: فضائل صحابہ و اہلبیت رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین



--
Shahzad Afzal
http://www.pakistanprobe.com


Read more >>

Sawaneh: Hazrat Khwaja Mueen-ud-Deen Chishti Ajmeri (Alayhir Rahmah) [URDU]


https://fbcdn-sphotos-h-a.akamaihd.net/hphotos-ak-prn1/37528_416070320333_4836088_n.jpg
اللہ تعالیٰ نے ہندوستان میں لوگوں کی روحانی تربیت اور اسلام کی تبلیغ و اشاعت اور تحفظ و استحکام کے لیے طریقت کے جس خاندان کو منتخب فرمایا وہ سلسلۂ چشت ہے اس سلسلہ کی نامور اور بزرگ ہستی خواجہ غریب نواز حضرت معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ کو ہندوستان میں اسلامی حکومت کی بنیاد سے پہلے ہی اس بات کا غیبی طور پر اشارا مل چکا تھا کہ وہ سرزمینِ ہند کو اپنی تبلیغی و اشاعتی سرگرمیوں کا مرکز بنائیں۔ 

چشت جس کی جانب اس سلسلہ کو منسوب کیا جاتا ہے وہ خراسان میں ہرات کے قریب ایک مشہور شہر ہے جہاں اللہ تعالیٰ کے کچھ نیک بندوں نے انسانوں کی روحانی تربیت اور تزکیۂ نفس کے لیے ایک بڑا مرکز قائم کیا۔ ان حضرات کے طریقۂ تبلیغ اور رشد و ہدایت نے پوری دنیا میں شہرت و مقبولیت حاصل کرلی اور اسے اس شہر چشت کی نسبت سے ''چشتیہ'' کہا جانے لگا۔ چشت موجودہ جغرافیہ کے مطابق افغانستان میں ہرات کے قریب واقع ہے۔ 

سلسلۂ چشتیہ کے بانی حضرت ابو اسحاق شامی رحمۃ اللہ علیہ ہیں۔ سب سے پہلے لفظ ''چشتی'' ان ہی کے نام کا جز بنا، لیکن حضرت خواجہ معین الدین چشتی حسن سنجری رحمۃ اللہ علیہ کی شخصیت نے اس سلسلہ کے پرچم تلے دعوتِ حق کا جو کام انجام دیا اور آپ کو جو شہرت و مقبولیت حاصل ہوئی اس سے لفظ ''چشتی'' دنیا بھر میں بے پناہ مشہور و مقبول ہوا۔ طریقت کے دیگر سلاسل کی طرح یہ سلسلہ بھی حضرت علی مرتضیٰ کرم اللہ تعالیٰ وجہہ سے ملتا ہے۔ 


http://images.orkut.com/orkut/photos/OgAAAKyTvEFIYEXcFtlBNptbm7UUujZ4y8FMID9lR560iSniQDyAUZIPah6IvBEVeHWvoABXil6hQT_5WObvbi8vrTIAm1T1UBRmCbHN3MeDmWeUABvDmCzhvCRt.jpg

نام و نسب

سر زمینِ ہند میں سلسلۂ چشتیہ کے بانی اور اسلام کی تبلیغ و اشاعت کے سر خیل اور سالار حضرت خواجہ غریب نوازمعین الدین چشتی حسن سنجری اجمیری رحمۃ اللہ علیہ کا نام ''معین الدین'' ہے، والدین محبت سے آپ کو'' حسن ''کہہ کر پکارتے تھے، آپ حسنی اور حسینی سید تھے۔ آپ کا سلسلۂ نسب بارہویں پُشت میں حضرت علیِ مرتضیٰ رضی اللہ عنہ سے جاملتا ہے۔ 

پدری سلسلۂ نسب: خواجہ معین الدین بن غیاث الدین بن کمال الدین بن احمد حسین بن نجم الدین طاہر بن عبدالعزیز بن ابراہیم بن امام علی رضا بن موسیٰ کاظم بن امام جعفر صادق بن محمد باقر بن امام علی زین العابدین بن سیدناامام حسین بن علیِ مرتضیٰ رضوان اللہ علیہم اجمعین و رحمہم اللہ تعالیٰ۔ 

مادری سلسلۂ نسب: بی بی ام الورع موسوم بہ بی بی ماہ نور بنت سید داود بن سید عبداللہ حنبلی بن سید یحییٰ زاہد بن سید محمد روحی بن سید داود بن سید موسیٰ ثانی بن سید عبداللہ ثانی بن سید موسیٰ اخوند بن سید عبداللہ بن سید حسن مثنیٰ بن سیدنا امام حسن بن سیدنا علیِ مرتضیٰ رضوان اللہ علیہم اجمعین و ررحمہم اللہ تعالیٰ۔ 

ولادت اور مقامِ ولات

حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت ِ باسعات ۵۳۷ ہجری بہ مطابق ۱۱۴۲ عیسوی کو سجستان جسے ''سیستان'' بھی کہا جاتا ہے ، کے قصبۂ سنجر میں ہوئی۔ اسی لیے حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ کوحضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری سنجری بھی کہا جاتا ہے۔ آپ کی ولادت پوری دنیا کے لیے باعثِ رحمت اور سعادت بنی۔ آپ نے اس دنیا میں عرفانِ  خداوندی، خشیتِ ربانی اور عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا چرچا کیا اور کفر و شرک کی گھٹا ٹوپ کو اسلام و ایمان کی روشنی سے جگمگا دیا۔ آپ کی والدہ ماجدہ بیان کرتی ہیں :

''جب معین الدین میرے شکم (پیٹ) میں تھے تو میںاچھے خواب دیکھا کرتی تھی گھر میں خیر و برکت تھی ، دشمن دوست بن گئے تھے۔ ولادت کے وقت سارا مکان انوارِالٰہی سے روشن تھا۔ '' ( مرأۃ الاسرار) 

بچپن

آپ کی پرورش اور تعلیم و تربیت خراسان میں ہوئی ، ابتدائی تعلیم والدِ گرامی کے زیرِ سایا ہوئی جو بہت بڑے عالم تھے۔ نو برس کی عمر میں قرآن شریف حفظ کرلیا پھر ایک مدرسہ میں داخل ہوکر تفسیر و حدیث اور فقہ (اسلامی قانون) کی تعلیم حاصل کی، خداداد ذہانت و ذکاوت، بلا کی قوتِ یادداشت اور غیر معمولی فہم وفراست کی وجہ انتہائی کم مدت میں بہت زیادہ علم حاصل کرلیا۔ حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ گیارہ برس کی عمر تک نہایت ناز و نعم اور لاڈ پیار میں پروان چرھتے رہے۔ جب حضرت خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ کی عمر پندرہ سال کی ہوئی تو آپ کے والد حضرت غیاث الدین حسن صاحب علیہ الرحمہ کا سایۂ شفقت و محبت سر سے اُٹھ گیا لیکن باہمت والدۂ ماجدہ بی بی ماہ نور نے آپ کو باپ کی کمی کا احساس نہیں ہونے دیا۔ والدِ گرامی کے اس دارِ فانی سے کوچ کرنے کے بعد ترکہ میں ایک باغ اور ایک پن چکی ملی۔ جوانی کے عالم میں اسی ترکہ کو اپنے لیے ذریعۂ معاش بنایا خود ہی باغ کی دیکھ بھال کرتے اور اس کے درختوں کو پانی دیتے اور باغ کی صفائی ستھرائی کا بھی خود ہی خیال رکھتے۔ اسی طرح پن چکی کا سارا نظام بھی خود سنبھالتے ، جس سے زندگی بڑی آسودہ اور خوش حال بسر ہورہی تھی۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے آپ کو انسانوں کی تعلیم و تربیت اور کائنات کے گلشن کی اصلاح و تذکیر کے لیے منتخب فرمالیا تھا۔ لہٰذا آپ کی زندگی میں ایک ایسا واقعہ پیش آیا جس سے آپ نے دنیا سے کنارہ کشی اختیار کرلی اور طریقت و سلوک کے مراتب طَے کرتے ہوئے وہ مقامِ بلند حاصل کیا کہ آج بھی آپ کی روحانیت کو ایک جہان تسلیم کررہا ہے۔ حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ کی زندگی کا وہ واقعہ ذیل میں ملاحظہ فرمائیے جس نے آپ کی دنیا بدل دی۔ 

http://images.orkut.com/orkut/photos/OgAAAHvgVsmQg1_apdb3MGfwHfB1vZJ9u0p1Rg9JK5hiCFgmREI2VULN0LBeAki9XyEyYOVtbODn1ilzK4HCZxTlVmAAm1T1UMEufD-GBCKk0sFHLxgTYgk8HZIx.jpg

مجذوبِ وقت ابراہیم قندوزی کی آمد اور حضرت خواجہ کا ترکِ دنیا کرنا

ایک دن ترکے میں ملے ہوئے باغ میں آپ درختوں کو پانی دے رہے تھے کہ اس بستی کے ایک مجذوب ابراہیم قندوزی اشارۂ غیبی پر باغ میں تشریف لائے۔ جب حضرت خواجہ کی نظر اِس صاحبِ باطن مجذوب پر پڑی تو ادب و احترام کے ساتھ ان کے قریب گئے اور ایک سایا دار درخت کے نیچے آپ کو بٹھا دیا اور تازہ انگور کا ایک خوشہ سامنے لاکر رکھ دیا ، خود دوزانو ہوکر بیٹھ گئے۔ حضرت ابراہیم قندوزی نے انگور کھائے اور خوش ہوکر بغل سے روٹی کا ایک ٹکڑا نکالا اور اپنے منہ میں ڈالا دانتوں سے چبا کر حضرت خواجہ غریب نواز کے منہ میں ڈال دیا اس طرح حق و صداقت اور عرفانِ خداوندی کے طالبِ حقیقی کو ان لذّتوں سے فیض یاب کردیا۔ روٹی کا حلق میں اترنا تھا کہ دل کی دنیا بدل گئی۔ روح کی گہرائیوں میں انورِ الٰہی کی روشنی پھوٹ پڑی ، جتنے بھی شکوک و شبہات تھے سب کے سب اک آن میں ختم ہوگئے ،دنیا سے نفرت اور بے زاری پیدا ہوگئی اور آپ نے دنیاوی محبت کے سارے امور سے کنارہ کشی اختیار کرلی، باغ، پن چکی اور دوسرے ساز و سامان کو بیچ ڈالا، ساری قیمت فقیروں اور مسکینوں میں بانٹ دی اور طالبِ حق بن کر وطن کو چھوڑ دیااور سیر و سیاحت شروع کردی۔ 

علمِ شریعت کا حصول

زمانۂ قدیم سے یہ دستور چلا آرہا ہے کہ علمِ طریقت کی تحصیل کے خواہش مند پہلے علمِ شریعت کو حاصل کرکے اس میں کمال پیداکرتے ہوئے عمل کی دشوار گزار وادی میں دیوانہ وار اور مستانہ وار چلتے رہتے ہیں اور بعد میں علمِ طریقت کا حصول کرتے ہیں۔ چناں چہ حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اسی طریقۂ کار کو اپنایا اور وطن سے نکل کر سمرقند و بخارا کا رخ کیا جو کہ اس وقت پورے عالمِ اسلام میں علم و فن کے مراکز کے طور پر جانے جاتے تھے جہاں بڑی بڑی علمی ودینی درس گاہیں تھیں جن میں اپنے زمانے کے ممتاز اور جید اساتذۂ کرام درس و تدریس کے فرائض انجام دیا کرتے تھے۔ ان درس گاہوں میں دنیا بھر سے علمِ دین کی طلب رکھنے والے افراد کھنچ کھنچ کر آتے اور اپنی تشنگی کو بجھاتے تھے۔ حضرت خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ بھی یہاں آکر پورے ذوق و شوق اور لگن کے ساتھ طلبِ علم میں مصروف ہوگئے۔ تفسیر، حدیث، فقہ، کلام اور دیگر ضروری علوم کا درس لیا اور کامل مہارت حاصل کرلی ، آپ کے اساتذہ میں نمایاں طور پر مولانا حسام الدین بخاری اور مولانا شرف الدین صاحب شرع الاسلام کے نام لیے جاتے ہیں۔ 

پیرِ کامل کی تلاش

سمر قند اور بخارا کی ممتاز درس گاہوں میں جید اساتذۂ کرام کے زیرِسایا رہ کر حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ نے علومِ شریعت کی تکمیل کرنے کے بعد روحانی علوم کی تحصیل کے لیے اپنے سفر کا آغاز کیا۔ اس زمانے میں علمِ طریقت کے مراکز کے طور پر پوری دنیاے اسلام میں عراق و حجازِ مقدس مشہور و معروف تھے، جہاں صالحین اور صوفیاے کاملین کی ایک کثیر تعداد بادۂ وحدت اور روحانیت و معرفت کے پیاسوں کی سیرابی کا کام کررہی تھی۔ حضرت خواجہ غریب نوازرحمۃ اللہ علیہ کائناتِ ارضی میں اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی مختلف اشیا کا مشاہدہ و تفکراور اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں اولیا و علما اور صلحا و صوفیہ کی زیارت کرتے ہوئے بغداد، مکہ اورمدینہ کی سیر و سیاحت اور زیارت کی سعادتیں حاصل کیں۔ پھر پیرِ کامل کی تلاش و جستجو میں مشرق کی سمت کا رُخ کیا اورعلاقۂ نیشاپور کے قصبۂ ہارون پہنچے جہاں ہادیِ طریقت حضرت خواجہ عثمان ہارونی رحمۃ اللہ علیہ کی خانقاہ میں روحانی وعرفانی مجلسیں آراستہ ہوتی تھیں۔ خانقاہِ عثمانی میں پہنچ کر حضرت خواجہ غریب نوا رحمۃ اللہ علیہ کو منزلِ مقصود حاصل ہوگئی اور آپ مرشدِ کامل حضرت خواجہ عثمان ہارونی رحمۃ اللہ علیہ کے حلقۂ ارادت میں شامل ہوگئے اور ان کے مبارک ہاتھوں پر بیعت کی۔ 

حضرت خواجہ رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی بیعت کے واقعہ کو اس طرح بیان کیا ہے:

''ایسی صحبت میں جس میں بڑے بڑے معظم و محترم مشائخِ کبار جمع تھے میں ادب سے حاضر ہو ا اور روے نیاز زمین پر رکھ دیا ، حضرت مرشد نے فرمایا: دورکعت نماز ادا کر ، میں نے فوراً تکمیل کی۔ رو بہ قبلہ بیٹھ ، میں ادب سے قبلہ کی طرف منہ کرکے بیٹھ گیا، پھر ارشاد ہوا سورۂ بقرہ پڑھ ، میں نے خلوص و عقیدت سے پوری سورت پڑھی ، تب فرمایا : ساٹھ بار کلمۂ سبحان اللہ کہو، میں نے اس کی بھی تعمیل کی ، ان مدارج کے بعد حضرت مرشد قبلہ خود کھڑے ہوئے اور میرا ہاتھ اپنے دستِ مبارک میں لیا آسمان کی طرف نظر اٹھا کے دیکھا اور فرمایا میں نے تجھے خدا تک پہنچا دیا ان جملہ امور کے بعد حضرت مرشد قبلہ نے ایک خاص وضع کی ترکی ٹوپی جو کلاہِ چارتَرکی کہلاتی ہے میرے سر پر رکھی ، اپنی خاص کملی مجھے اوڑھائی اور فرمایا بیٹھ میں فوراً بیٹھ گیا ، اب ارشاد ہوا ہزار بار سورۂ اخلاص پڑھ میں اس کو بھی ختم کرچکا تو فرمایا ہمارے مشائخ کے طبقات میں بس یہی ایک شب و روز کا مجاہدہ ہے لہٰذا جا اور کامل ایک شب و روز کا مجاہدہ کر، اس حکم کے بہ موجب میں نے پورا دن اور رات عبادتِ الٰہی اور نماز و طاعت میں بسر کی دوسرے دن حاضر ہوکے ، روے نیاز زمین پر رکھا تو ارشاد ہوا بیٹھ جا، میں بیٹھ گیا، پھر ارشاد ہو ا اوپر دیکھ میں نے آسمان کی طرف نظر اٹھائی تو دریافت فرمایا کہاں تک دیکھتا ہے ، عرض کیا عرشِ معلا تک ، تب ارشاد ہوا نیچے دیکھ میں نے آنکھیں زمین کی طرف پھیری تو پھر وہی سوال کیا کہاں تک دیکھتا ہے عرض کیا تحت الثریٰ تک حکم ہوا پھر ہزار بار سورۂ اخلاص پڑھ اور جب اس حکم کی بھی تعمیل ہو چکی تو ارشاد ہو اکہ آسمان کی طرف دیکھ اور بتا کہاں تک دیکھتا ہے میں نے دیکھ کر عرض کیا حجابِ عظمت تک ، اب فرمایا آنکھیں بند کر ، میں نے بند کرلی ، ارشاد فرمایا ا ب کھول دے میں نے کھل دی تب حضرت نے اپنی دونوں انگلیاں میری نظر کے سامنے کی اور پوچھا کیا دیکھتا ہے ؟ عرض کیا اٹھارہ ہزار عالم دیکھ رہا ہوں ، جب میری زبان سے یہ کلمہ سنا تو ارشاد فرمایا بس تیرا کام پورا ہوگیا پھر ایک اینٹ کی طرف دیکھ کر فرمایا اسے اٹھا میں نے اٹھایا تو اس کے نیچے سے کچھ دینار نکلے ، فرمایا انھیں لے جاکے درویشوں میں خیرات کر۔ چناں چہ میں نے ایسا ہی کیا۔ '' (انیس الارواح ، ملفوظاتِ خواجہ ، صفحہ ۱/ ۲) 

https://fbcdn-sphotos-d-a.akamaihd.net/hphotos-ak-prn1/v/t1.0-9/10268526_10203163005427526_1784374254919628592_n.jpg?oh=509ee98bfeeedfeed2e3fe14b30b39f5&oe=53D5E3A4&__gda__=1407345987_3c727794c6d97a7fcc8885e714e2ec02

حضرت خواجہ معین الدین چشتی کی خلافت و جانشینی

جب حضرت خواجہ معین الدین چشتی کو آپ کے پیر ومرشد نے ولایت اور روحانیت کے تمام علوم و فنون سے آراستہ کرکے مرتبۂ قطبیت پر فائز کر دیا تو بارگاہِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی حج کے بعد حضرت خواجہ کو قبولیت کی سند مل گئی۔ اس واقعہ کے بعد پیرو مرشد نے فرمایا کہ اب کام مکمل ہوگیا ، چناں چہ اس کے بعد بغداد میں ۵۸۲ھ / ۱۱۸۶ء کو حضرت خواجہ عثمان ہارونی رحمۃ اللہ علیہ نے آپ کو اپنا نائب اور جانشین بنا دیا۔ اس ضمن میں خود حضرت مرشدِ کامل نے یوں اظہارِ خیال فرمایا ہے :

''معین الدین محبوبِ خدا ہے اور مجھے اس کی خلافت پر ناز ہے۔ ''

حضرت خواجہ کی سیر و سیاحت اور ہندوستان کی بشارت

حضرت خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ کو پیر ومرشد نے اپنی خلافت و اجازت سے نواز کر رخصت کیا۔ آپ نے مرشدِ کامل سے فیض حاصل کر کے اللہ جل شانہ کی کائنات کا مشاہدہ اور اہل اللہ کی زیارت اور ملاقات کی غرض سے سیر وسیاحت کا آغاز کیا۔ سفر کے دوران آپ نے اپنے پیرومرشد کی ہدایت پر مکمل طور پر عمل کیا۔ چوں کہ حضرت خواجہ نے اپنی یہ سیاحت علومِ باطنی وظاہری کی مزید تحصیل کی غرض سے اختیار کی اس لیے وہ وہیں جاتے جہاں علما و صلحا اور صوفیہ و مشائخ رہتے۔ سنجان میں آپ نے حضرت شیخ نجم الدین کبرا رحمۃ اللہ علیہ اور جیلان میں بڑے پیرحضرت سیدنا عبدالقادر جیلانی بغدادی رحمۃ اللہ علیہ اور بغداد میں حضرت شیخ ضیاء الدین کی زیارت کی اور ان سے معرفت و ولایت کے علوم و فنون حاصل کیے۔ 

بغداد کے بعد حضرت خواجہ اصفہان پہنچے تو یہاں حضرت شیخ محمود اصفہانی سے ملاقات فرمائی حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی ان دنوں اصفہان میں موجود تھے۔ جب آپ نے حضرت خواجہ کے چہرۂ زیبا کی زیارت کی تو بہت متاثر ہوئے دل کی دنیا بدل گئی اور آپ پر نثار ہوکر مریدوں میں شامل ہوگئے اور حضرت خواجہ کی اتنی خدمت کی کہ بعد میں وہی آپ کے جانشین ہوئے۔ اصفہان سے حضرت خواجہ ۵۸۳ھ / ۱۱۸۷ء میں مکۂ مکرمہ پہنچے اور زیارت و طوافِ خانۂ کعبہ سے سرفراز ہوئے۔ ایک روز حرم شریف کے اندر ذکرِ الٰہی میں مصروف تھے کہ غیب سے آپ نے ایک آواز سنی کہ:

'' اے معین الدین ! ہم تجھ سے خوش ہیں تجھے بخش دیا جو کچھ چاہے مانگ ، تاکہ عطا کروں۔ ' حضرت خواجہ صاحب نے جب یہ ندا سنی تو بے حد خوش ہوئے اور بارگاہِ الٰہی میں سجدۂ شکر بجالایااور عاجزی سے عرض کیا کہ ، خداوندا! معین الدین کے مریدوں کو بخش دے۔ آواز آئی کہ اے معین الدین تو ہماری مِلک ہے جو تیرے مرید اور تیرے سلسلہ میں مرید ہوں گے انھیں بخش دوں گا۔ ''

حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ نے مزید کچھ دن مکہ میں قیام کیا اور حج کے بعد مدینۂ منورہ کے لیے روانہ ہوئے۔ مدینۂ منورہ میں حضرت خواجہ ، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مزارِ پاک کی زیارت سے مشرف ہوئے۔ یہاں آپ اپنے روز و شب عبادت و ریاضت ، ذکرِ الٰہی اور درود وسلام میں بسر کرتے ، ایک دن بارگاہِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ کو ہندوستان کی ولایت و قطبیت کی بشارت اس طرح حاصل ہوئی کہ :

'' اے معین الدین تو میرے دین کا معین ہے میں نے تجھے ہندوستان کی ولایت عطا کی وہاں کفر کی ظلمت پھیلی ہوئی ہے تو اجمیر جا تیرے وجود سے کفر کا اندھیرا دور ہوگا اور اسلام کا نور ہر سو پھیلے گا۔ '' ( سیر الاقطاب ص ۱۲۴) 

جب حضرت خواجہ نے یہ ایمان افروز بشارت سنی تو آپ پر وجد و سرور طاری ہوگیا۔ آپ کی خوشی و مسرت کی کوئی انتہا نہ رہی۔ حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ نے جب مقبولیت اور ہندوستان کی خوش خبری حاصل کرلی تو تھوڑا حیرا ن ہوئے کہ اجمیر کہاں ہے؟ یہی سوچتے ہوئے آپ کو نیند آگئی ، خواب میں کیا دیکھتے ہیں کہ سرکارِ مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے ہوئے ہیں۔ پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو خواب کی حالت میں ایک ہی نظر میں مشرق سے مغرب تک سارے عالم کو دکھا دیا، دنیا کے تمام شہر اور قصبے آپ کی نظروں میں تھے یہاں تک کہ آپ نے اجمیر ، اجمیر کا قلعہ اور پہاڑیاں بھی دیکھ لیں۔ حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت خواجہ کو ایک انار عطا کرکے ارشاد فرمایا کہ ہم تجھ کو خدا کے سپرد کرتے ہیں۔ ( مونس الارواح ص ۳۰) 

نیند سے بیدار ہونے کے بعد آپ نے چالیس اولیا کے ہمراہ ہندوستان (اجمیر ) کا قصد کیا۔ 

http://images.orkut.com/orkut/photos/OgAAAKskN7IkHMevYhUbPcqZOjuphSMBIPgqSr9VZZFVMDhDjNABp350h0z2TrhXxZFmwj5E6tIdTwmT6ZaVi_vCMX4Am1T1UNXvEx0E1xkPZ6QVPTVxy2dIGRdE.jpg

حضر ت خواجہ کی اجمیر میں آمد

حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ کس سن میں اجمیر تشریف لائے اس سلسلے میں آپ کے تذکرہ نگاروں کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے۔ ویسے زیادہ تر اس بات پر متفق ہیں کہ آپ ۵۸۷ھ / ۱۱۹۱ء کو اجمیر شہر پہنچے۔ جہاں پہلے ہی دن سے آپ نے اپنی مؤثر تبلیغ ،حُسنِ اَخلاق، اعلا سیرت و کردار اور باطل شکن کرامتوں سے لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرلیا۔ اہلِ اجمیر نے جب اس بوریہ نشین فقیر کی روحانی عظمتوں کا اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کیا تو جوق در جوق مسلمان ہونے لگے۔ اس طرح رفتہ رفتہ اجمیر جو کبھی کفر و شرک اور بت پرستی کا مرکز تھا ، اسلام و ایمان کا گہوارہ بن گیا۔ 

حضرت خواجہ کا وصالِ پُر ملال

عطاے رسول حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیر ی رحمۃ اللہ علیہ نے تبلیغِ اسلام اور دعوتِ حق کے لیے ہندوستان کی سرزمین پر تقریباً ۴۵ سال گذارے۔ آپ کی کوششوں سے ہندوستان میں جہاں کفر و شرک اور بت پرستی میں مصروف لوگ مسلمان ہوتے گئے وہیں ایک مستحکم اور مضبوط اسلامی حکومت کی بنیاد بھی پڑ گئی۔ تاریخ کی کتابوں میں آتا ہے کہ حضرت خواجہ کی روحانی کوششوں سے تقریباً نوے لاکھ لوگوں نے کلمہ پڑھ کر اسلام قبول کیا۔ جو کہ ایک طرح کا ناقابلِ فراموش کارنامہ ہے۔ اخیر عمر میں حضرت خواجہ کو محبوبِ حقیقی جل شانہ سے ملاقات کا شوق و ذوق بے حد زیادہ ہوگیا اور آپ یادِ الٰہی اور ذکرِ و فکر الٰہی میں اپنے زیادہ تر اوقات بسر کرنے لگے۔ آخری ایام میں ایک مجلس میں جب کہ اہل اللہ کا مجمع تھا آپ نے ارشاد فرمایا:

''اللہ والے سورج کی طرح ہیں ان کا نور تمام کائنات پر نظر رکھتا ہے اور انھیںکی ضیا پاشیوں سے ہستی کا ذرّہ ذرّہ جگمگا رہا ہے۔۔۔ اس سرزمین میں مجھے جو پہنچایا گیا ہے تو اس کا سبب یہی ہے کہ یہیں میری قبر بنے گی چند روز اور باقی ہیں پھر سفر درپیش ہے۔ '' (دلیل العارفین ص ۵۸) 

عطاے رسول سلطان الہند حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ نے جس روز اس دارِ فانی سے دارِ بقا کی طر ف سفر اختیار فرمایاوہ ۶ رجب المرجب ۶۳۳ھ بہ مطابق ۱۶ مارچ ۱۲۳۶ء بروز پیر کی رات تھی۔ عشا کی نماز کے بعد آپ اپنے حجرہ میں تشریف لے گئے اور خادموں کو ہدایت فرمائی کہ کوئی یہاں نہ آئے۔ جو خادم دروازہ پر موجود تھے ساری رات وجد کے عالم میں پیر پٹکنے کی آواز سنتے رہے۔ رات کے آخری پہر میں یہ آواز آنا بند ہوگئی۔ صبح صادق کے وقت جب نمازِ فجر کے لیے دستک دی گئی تو دروازہ نہ کھلا چناں چہ جب خادموں نے دروازہ کھولا تو دیکھا کہ حضرت خواجہ معین الدین چشتی اپنے مالکِ حقیقی کے وصال کی لذت سے ہم کنار ہوچکے ہیں۔ اور آپ کی پیشانی پر یہ غیبی عبارت لکھی ہوئی ہے:

''ہٰذا حبیبُ اللہ ماتَ فِی حُب اللہ۔''

 آپ کے صاحب زادے حضرت خواجہ فخر الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ نے نمازِ جنازہ پڑھائی اور آپ کا جسمِ مبارک اسی حجرے میں دفن کیا گیا جہاں آپ کی قیام گاہ تھی۔ 

ازواج و اولاد

پہلی شادی: حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃاللہ علیہ کو دین کی تبلیغ و اشاعت کی مصروفیت کی بنا پر ازدواجی زندگی کے لیے وقت نہ مل سکا ایک مرتبہ آپ کو خواب میں سرکارِ مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت ہوئی۔ آپ نے فرمایا:'' اے معین الدین! توہمارے دین کا معین ہے پھر بھی تو ہماری سنتوں سے ایک سنت چھوڑ رہا ہے۔ '' بیدار ہونے کے بعد آپ کو فکر دامن گیر ہوئی۔ اور آپ نے ۵۹۰ھ / ۱۱۹۴ء میں بی بی امۃ اللہ سے پہلا نکاح فرمایا۔ 

دوسری شادی: ۶۲۰ھ / ۱۲۲۳ء کو سید وجیہ الدین مشہدی کی دخترِ نیک اختر بی بی عصمۃ اللہ سے دوسرا نکاح فرمایا۔

اولاد و امجاد: حضرت خواجہ صاحب کی اولاد میں تین لڑکے: (۱) خواجہ فخر الدین چشتی اجمیری (وفات ۵ شعبان المعظم ۶۶۱ھ) (۲) خواجہ ضیاء الدین ابو سعید (۳) خواجہ حسام الدین ، جو بچپن میں ابدالوں کے زمرے میں شامل ہوکر غائب ہوگئے۔ اور ایک دختر حافظہ بی بی جمال تھیں۔ 

https://fbcdn-sphotos-e-a.akamaihd.net/hphotos-ak-ash4/s720x720/283721_10151400825065334_354686439_n.jpg

— — —
کتاب: حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ
مولف: ڈاکٹر محمد حسین مشاہد رضوی (مد ظلہ عالی)



--
Shahzad Afzal
http://www.pakistanprobe.com


Read more >>