ایک اور قول کے مطابق شعبان تشعب سے ماخوذ ہے اور تشعب کے معنی تفرق کے ہیں۔ چونکہ اس ماہ میں بھی خیر کثیر متفرق ہوتی ہے، نیز بندوں کو رزق اس مہینہ میں متفرق اور تقسیم ہوتے ہیں۔ (فضائل الایام والشہور صفحہ ٤٠٤/ ماثبت باالسنۃ صفحہ١٨٦)
سیدی و سندی حضور غوث اعظم الشیخ عبدالقادر حسنی حسینی جیلانی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ شعبان میں پانچ حرف ہیں۔
١۔ شین
٢۔ عین
٣۔ باء
٤۔ الف
٥۔ نون
پس ''شین'' عبارت ہے شرف سے اور ''عین'' عبارت ہے علو سے اور ''با ''عبارت ہے بِرّ (یعنی بھلائی) سے اور ''الف ''عبارت ہے الفت سے اور ''نون ''عبارت ہے نور سے۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ ماہِ شعبان میں اپنے نیک بندوں کو یہ پانچ چیزیں عطا فرماتا ہے۔ (غنیۃ الطالبین عربی، جلد۔١، صفحہ ٢٨٨، نزہۃ المجالس ج۔١، صفحہ ١٣١)
شب برات سے متعلق ارشاد خداوندی :
حٰمۤ o وَ الْکِتٰبِ الْمُبِیْنِ o اِنَّا اَنْزَلْنٰہُ فِیْ لَیْلَۃٍ مُّبٰرَکَۃٍ اِنَّا کُنَّا مُنْذِرِیْنَ o فِیْھَا یُفْرَقُ کُلُّ اَمْرٍ حَکِیْمٍo اَمْرًا مِّنْ عِنْدِنَا ط اِنَّا کُنَّا مُرْسِلِیْنَo (سورہ دخان، آیت ١ تا ٥)
ترجمہ :۔ قسم اس روشن کتاب کی بیشک ہم نے اسے برکت والی رات میں اتارا بے شک ہم ڈر سنانے والے ہیں اس میں بانٹ دیا جاتا ہے ہر حکمت والا کام ہمارے پاس کے حکم سے بے شک ہم بھیجنے والے ہیں۔ (کنز الایمان)
اس رات سے کون سی رات مراد ہے علمائے کرام کے اس میں دو قول ہیں۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما و حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ اور اکثر مفسرین کی رائے یہ ہے کہ وہ لیلۃ القدر تھی کیونکہ سورہ قدر میں اس کی وضاحت موجود ہے اور حضرت عکرمہ رضی اللہ عنہ اور جماعت کا خیال ہے کہ اس سے مراد پندرہ شعبان کی رات تھی۔
شعبان المعظم کی اہم ترین عبادت:
غوث الثقلین ، امام الفریقین، سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں ''اس مہینے میں محبوب خدا صلی اللہ علیہ وسلم پر درود شریف کی کثرت کرنی چاہئے ، کیونکہ یہ مہینہ حضور پر نور شافع یوم النشور صلی اللہ علیہ وسلم کا مہینہ ہے ۔ درود شریف اور اس مہینے کے وسیلے سے بار گاہِ الٰہی میں قرب حاصل کرنا چاہئے۔ (غنیۃ الطالبین عربی، جلد ۔١،صفحہ ٢٨٨)
فضائل میں احادیث:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ،'' رجب اللہ تعالیٰ کا مہینہ ہے، شعبان میرا مہینہ ہے، اور رمضان میری اُمت کا مہینہ ہے۔'' (ماثبت با السنۃ صفحہ١٧٠بحوالہ جامع الکبیر بروایت امام حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ)
محدث ویلمی علیہ الرحمۃ روایت کرتے ہیں، ''حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا، میں نے حضور اکرم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سُنا ، اللہ تعالیٰ چار راتوں میں بھلائی کی مہر لگاتا ہے۔
(١) شب عید الاضحی
(٢) شب عید الفطر
(٣) ماہ رجب کی پہلی شب
(٤) شب نصف شعبان۔
حضرت ابو امامہ باہلی رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے ، نبی کریم رؤف الرحیم علیہ الصلوٰۃ والتسلیم نے فرمایا، ''پانچ راتیں ایسی ہیں کہ ان میں کوئی دعا رد نہیں ہوتی،
(١) رجب کی پہلی رات
(٢) نصف شعبان کی رات
(٣) جمعہ کی رات
(٤) اور
(٥) دونوں عیدوں کی رات۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے شعبان کی تیرہویں شب اپنی امت کی شفاعت کیلئے دعا کی تو آپ کو تہائی عطا ہوا، پھر چودہویں شب دعا کی تو دو تہائی عطا ہوا، پھر پندرہویں شب دعا کی تو سب کچھ عطا ہوا ، سوائے اس کے جو اللہ تعالیٰ سے بِدکے ہوئے اونٹ کی طرح بھاگے یعنی نافرمانی کرنے والا۔ (مکاشفۃ القلوب صفحہ ٦٨٢)
حضرت ابو امامہ باہلی رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آمد شعبان پر فرماتے ، اس میں اپنی جانوں کو پاک کرو اور اپنی نیتوں کو درست کرو۔ (مکاشفۃ القلوب ٦٨١)
ابن اسحق نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کیا کہ ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے مجھے بتایا نصف شعبان کی شب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں سجدہ کی حالت میں یہ دعا فرما رہے تھے ،
سَجَدَ لَکَ سَوَا دِیْ وَخَیَالِیْ وَاٰمَنَ بِکَ فَوَا دِیْ وَہٰذِہ یَدِیْ وَمَا جَنَیْتُ بِہَا عَلیٰ نَفْسِیْ یَا عَظِیْمًا یُّرْ جیٰ لِکُلِّ عَظِیْمٍ اِغْفِرِ الذَّنْبَ الْعَظِیْمَ سَجَدَوَجْہِیَ لِلَّذِیْ خَلَقَہ، وَصَوَّرَہ، وَشَقَّ سَمْعَہ، وَبَصَرَہ،
میرے بدن اور میری صورت نے تجھے سجدہ کیا میرا دل تجھ پر ایمان لایا اور یہ میرے ہاتھ ہیں جن سے میں نے خود پر زیادتی کی، اے عظیم! ہر بڑی بات میں اس پر امید کی جاتی ہے، بڑا گناہ معاف فرمادے میرے چہرے نے اس ذات کو سجدہ کیا جس نے اسے پیدا کیا اس کی صورت بنائی اور کان اور آنکھ بنائے
پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سر اٹھایا اور یہ دعا کی:
اَللّٰہُمَّ ارْزُقْنِیْ قَلْبًا تَقِیًّا نَقِیًّا مِّنَ الشِّرْکِ بَرِیًّا لَّا کَا فِرًا وَّ لَا شَقِیًّا
اے اللہ ! مجھے ایسا دل عطا فرما جو پر ہیزگار ہو شرک سے پاک ہو ، نیک ہو ۔۔۔۔۔۔ نہ کافر ہواور نہ ہی بدبخت ہو
پھر دوبارہ سجدہ کیا اور میں نے یہ پڑھتے ہوئے سُنا،
اَعُوْذُ بِرِضَائِکَ مِنْ سَخَطِکَ وَ بِعَفْوِکَ مِنْ عُقُوْبَتِکَ وَبِکَ مِنْکَ لَا اُحْصِیْ ثَنَآءَ عَلَیْکَ اَنْتَ کَمَا اَثْنَیْتَ عَلٰی نَفْسِکَ اَقُوْلُ کَمَا قَالَ اَخِیْ دَاؤ،دُ اَغْفِرُ وَجْھِیْ فِیْ التُّرَابِ لِسَیِّدِیْ وَحَقَّ لِوَجْہِ سَیِّدِیْ اَنْ یُّغْفَرَ
میں تیری ناراضگی سے تیری پناہ مانگتا ہوں تیری سزا سے تیری معافی کی پناہ تجھ سے تیری پناہ، میں تیری تعریف نہیں کرسکتا بس تو ایسا ہے جیسے کہ تو نے خود اپنی تعریف فرمائی میں وہی کہتاہوں جو میرے بھائی حضرت داؤود علیہ السلام نے کہا میں اپنے آقا کیلئے مٹی میں اپنے چہرے کو خاک آلود کرتا ہوں اور چہرے کا یہ حق ہے کہ اپنے آقا کیلئے خاک آلودہ ہو۔ (مکاشفۃ القلوب صفحہ٦٨٣۔٦٨٤)
شعبان میں روزوں کی فضیلت:
یوں تو عام طور پر ہر ماہ چند نفلی روزے جسمانی و روحانی اعتبار سے مفید ہوتے ہیں۔ اگر ہر ماہ کی تیرہ ، چودہ اور پندرہ تاریخوں (ایامِ بیض) کے تین دن مسلسل روزے رکھیں تو ایمانی درجات کی بلندی، روحانی بالیدگی اور ایمان پر استقامت کی ضمانت حاصل ہوتی ہے لیکن شرط یہ ہے کہ صحیح العقیدہ سنی شیخ طریقت کی راہنمائی حاصل ہو، جو اپنے مریدین کو کامل طور پر مسلک امام احمد رضا محدث و محقق بریلوی علیہ الرحمۃ و الرضوان کے دائرے میں رکھے اور صلح کلی کے فریب سے بچائے۔
نسائی شریف میں حضرت اسامہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ میں نے عرض کیا، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! میں آپ کو اس قدر روزے رکھتا نہیں دیکھتا جس قدر کہ شعبان میں آپ روزوں کا اہتمام کرتے ہیں، آپ نے فرمایا یہ وہ مہینہ ہے جس سے لوگ غافل ہیں یہ رجب اور رمضان کے درمیان وہ مہینہ ہے کہ جس میں لوگوں کے اعمال رب العالمین کے حضور پیش ہوتے ہیں، میں پسند کرتا ہوں کہ میرا عمل جب پیش ہو تو میں روزے کی حالت سے ہوں۔'' (مکاشفۃ القلوب صفحہ ٦٨١، جامع الصغیر، جلددوم، صفحہ٣٠١)
اُم المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ میں نے محبوب خدا صلی اللہ علیہ وسلم کو رمضان المبارک کے علاوہ کسی مہینے میں مکمل روزے رکھتے ہوئے نہیں دیکھا اور شعبان سے زیادہ کسی مہینے میں روزے رکھتے نہیں دیکھا۔'' (بخاری شریف جلد اول صفحہ٢٦٤، مسلم شریف جلد اول صفحہ٣٦٥)
ام المؤمنین سیدہ عائشہ الصدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام مہینوں میں شعبان کے روزے زیادہ پسند تھے، پھر اسے رمضان سے ملادیا کرتے ۔ (جامع الترمذی جلد اول، صفحہ ٢٧٥، سنن ابو داؤد ، جلد اول صفحہ ٣٣٧، سنن ابن ماجہ صفحہ١١٩)
یہی روایت سیدہ ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے بھی ہے، جسے ابن ماجہ صفحہ ١١٩ ، اور ترمذی جلد اول صفحہ٢٧٥ پر ملاحظہ کریں۔
شبِ برأت کے فضائل و اعمال
(١) ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ میں ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ پاکر آپ کی تلاش میں نکلی آپ جنت البقیع میں تھے، آپ کا سر آسمان کی جانب اٹھا ہوا تھا، آپ نے مجھے فرمایا ، اے عائشہ کیا تمہیں ڈر ہے کہ اللہ اور اس کا رسول تم پر ظلم کرے گا؟ میں نے عرض کیا، یا رسول اللہ مجھے گمان ہوا شاید آپ دوسری ازواج کے پاس تشریف لے گئے ہیں۔ آپ نے فرمایا '' اللہ تعالیٰ پندرہویں شعبان کی رات آسمانِ دنیا پر (اپنی شایانِ شان) نزول فرماتا ہے اور بنو کلب قبیلہ کی بکریوں کے بالوں سے زیادہ لوگوں کی مغفرت فرماتا ہے۔(ترمذی جلد اول صفحہ٢٧٥، ابن ماجہ صفحہ ٩٩) امام ترمذی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں اس باب میں سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ سے بھی روایت ہے۔
(٢) مولائے کائنات حضرت علی کرم اللہ وجہہ روایت کرتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، نصف شعبان کی رات میں قیام کرو اور دن میں روزہ رکھو ، کیونکہ اللہ تعالیٰ اسی رات غروب آفتاب تا طلوع فجر آسمانِ دنیا کی طرف متوجہ رہتا ہے اور فرماتا ہے ''کوئی ہے مجھ سے مغفرت طلب کرنے والا کہ میں اسے بخش دوں ، کوئی رزق طلب کرے تو اس کو رزق دوں ، کوئی مصیبت سے چھٹکارا چاہے تو اس کو عافیت دوں۔ (ابن ماجہ شریف صفحہ نمبر٩٩)
(٣) حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے ،''نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ! اللہ تعالیٰ شعبان کی پندرہویں شب ظہور فرماتا ہے اور مشرک و چغل خور کے علاوہ سب کی بخشش فرمادیتا ہے (سنن ابن ماجہ صفحہ ٩٩)
قبل مغرب مختصر عمل مگر اجر بے مثل:
ماہ شعبان کی چودہ (١٤) تاریخ کو قبل مغرب چالیس مرتبہ لَاحَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِااللّٰہِ الْعَلِیِّ الْعَظِیْمِ اور سو (١٠٠) مرتبہ درود شریف پڑھنے کے نتیجے میں چالیس برس کے گناہ معاف ہوتے ہیں۔ بہشت میں خدمت کے لئے چالیس حوریں مامور کردی جاتی ہیں ۔ (مفتاح الجنان)
شعبان المعظم کے نوافل
آفات و بلیات و محتاجی سے نجات:
نماز مغرب کے بعد ٦ رکعات نوافل اس طرح پڑھیں کہ دو رکعت نماز نفل برائے درازی عمر بالخیرپڑھیں، پھر سورۃ یٰسین پڑھ کر مزید دورکعت نفل برائے ترقی و کشادگی رزق پڑھیں، پھر سوۃ یٰسین پڑھ کر مزید دو رکعت نفل برائے دفع بلیات و استغفار پڑھیں پھر سورۃ یٰسین پڑھ کر دعائے شعبان پڑھنے کے نتیجے میں انشاء اللہ ایک سال تک محتاجی اور آفات قریب نہیں آئیں گی۔
صلوۃ خیر سے چار ہزار نو سو (٤٩٠٠) حاجتیں پوری ہوتی ہیں:
حضرت خواجہ حسن بصری علیہ الرحمۃ الرضوان فرماتے ہیں کہ '' مجھے تیس صحابہ علیہم الرضوان نے بیان کیا ہے کہ اس رات جو شخص یہ نماز خیر پڑھتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی طرف ستر مرتبہ نظر رحمت فرماتا ہے ایک نظر میں ستر حاجتیں پوری فرماتا ہے جن میں سب سے ادنیٰ حاجت گناہوں کی مغفرت ہے اس طرح کل چار ہزار نو سو حاجتیں پوری ہوتی ہیں۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ دو دورکعت کر کے صلوٰۃ خیر مستحب کی نیت باندھیں، ہر رکعت میں سورۃ فاتحہ کے بعد دس بار سورۃ اخلاص پڑھیں۔ پچاس نمازوں کی سو رکعتوں میں ایک ہزار مرتبہ سورۃ اخلاص پڑھیں گے۔
تمام صغیرہ و کبیرہ گناہوں کی معافی:
آٹھ رکعت نفل دو دو کرکے پڑھیے، ہر رکعت میں سورۃ فاتحہ کے بعد ٢٥ مرتبہ سورۃ اخلاص پڑھ کر خلوص دل سے توبہ کریں اور درج ذیل دعا کھڑے ہوکر بیٹھ کر اور سجدے میں ٤٤ مرتبہ پڑھیں ۔ گناہوں سے ایسے پاک ہوجائیں گے جیسے کہ آج ہی پیدا ہوئے ہوں۔
اَللّٰہُمَّ اِنَّکَ عَفُوٌّ کَرِیْمٌ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّیْ یَا غَفُوْرُ یَا غَفُوْرُ یَا غَفُوْرُ یَا کَرِیْمُ
رزق میں برکت اورکاروبار کی ترقی کیلئے:
دورکعت نماز ہر رکعت میں سورۃ فاتحہ کے بعد آیت الکرسی ایک مرتبہ ، سورۃ اخلاص پندرہ مرتبہ پڑھیں۔ سلام کے بعد سو مرتبہ درود شریف پڑھیں پھر تین سو تیرہ مرتبہ یَاوَہَّابُ یَا بَاسِطُ یَارَزَّاقُ یَا مَنَّانُ یَا لَطِیْفُ یَا غَنِیُّ یَا مُغْنِیُّ یَا عَزِیْزُ یَا قَادِرُ یَا مُقْتَدِرُ کا وظیفہ پڑھنے سے کاروبار میں برکت اور رزق میں وسعت ہوجاتی ہے۔
موت کی سختی آسان اور عذابِ قبر سے حفاظت:
چار رکعت پڑھیں ہر رکعت میں سورۃ فاتحہ کے بعد سورۃ تکاثر ایک مرتبہ اور اخلاص تین دفعہ پڑھ کر سلام کے بعد سورۃ ملک اکیس مرتبہ اور سورۃ توبہ کی آخری دو آیتیں اکیس دفعہ پڑھنے سے انشاء اللہ والرسول صلی اللہ علیہ وسلم موت کی سختیوں اور قبر کے عذاب سے محفوظ رہیں گے۔
صلوۃ التسبیح:
حضور اکرم نور مجسم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے فرمایا: اے چچا! کیا میں تم کو عطا نہ کروں، کیا میں تم کو بخشش نہ کروں، کیا میں تم کو نہ دوں، کیا میں تمہارے ساتھ احسان نہ کروں، دس فوائد ہیں کہ جب تم یہ کرو تو اللہ تعالیٰ تمہارے گناہ بخش دے گا۔ اگلا، پچھلا، پرانا ، نیا ، جو بھولے سے کیا جو قصدًا کیا، چھوٹا ہو ، بڑا ہو ، پوشیدہ ہو یا ظاہر ہو۔ اس کے بعد صلوۃ التسبیح کی ترکیب تعلیم فرمائی، پھر فرمایا کہ اگر تم سے ہو سکے تو ہر روز ایک بار پڑھا کرو یا پھر جمعہ کے دن ایک بار یا ہر ماہ میں ایک بار یا سال میں ایک بار یہ بھی نہ ہوسکے تو زندگی میں ایک بار ضرور پڑھو۔ طریقہ یہ ہے کہ نیت کے بعد تکبیر تحریمہ کہہ کر ثنا پڑھیں، پھر تسبیح سُبْحَانَ اللّٰہِ وَالْحَمْدُلِلّٰہِ وِلَا اِلٰہَ اِلَّااللّٰہُ وَاللّٰہُ اَکْبَرُ پندرہ بار پھر تعوذ ، تسمیہ ،سورۃ فاتحہ اور کوئی بھی سورۃ پڑھ کر رکوع میں جانے سے پہلے دس بار یہی تسبیح پڑھیں پھر رکوع میں دس بار، رکوع سے سر اٹھا کر قومہ میں تحمید کے بعد دس بار پھر سجدہ میں دس بار دونوں سجدوں کے درمیان جلسے میں دس بار، دوسرے سجدہ میں دس بار اس طرح چاروں رکعت میں پڑھیں ہر رکعت میں پچھتر(٧٥) بار چاروں رکعتوں میں تین سو (٣٠٠) بار تسبیح پڑھی جائے گی۔ یہ واضح رہے کہ دوسری ، تیسری اور چوتھی رکعتوں کے شروع میں فاتحہ سے پہلے پندرہ بار اور رکوع سے پہلے دس بار یعنی قیام میں پچیس (٢٥) بار اور رکوع و سجود میں سُبْحَانَ رَبِّیَ الْعَظِیْم اور سُبْحَانَ رَبِّیَ الْاَعْلیٰ تین مرتبہ پڑھ کر پھر تسبیح دس دس بار پڑھیں گے۔
روز محشر اللہ تعالیٰ کا دیدار اور اس کی نظر کرم:
اس نعمت کے وہ مستحق ہوں گے جو پندرہ شعبان کا روزہ رکھیں اور بعد نماز ظہر چار رکعت دو دو کر کے اس طرح پڑھیں کہ پہلی رکعت میں فاتحہ کے بعدسورۃزلزال ایک بار،سورۃ اخلاص دس بار، دوسری رکعت میں سورۃ تکاثر ایک بار، سورۃاخلاص دس بار، دوسری نماز کی پہلی رکعت میں سورۃ فاتحہ کے بعد سورۃ کافرون تین دفعہ ،سورۃ اخلاص دس بار اور آخری رکعت میں آیت الکرسی تین دفعہ، سورۃ اخلاص پچیس بار، جو یہ عمل کریں گے تو روز محشر اللہ تعالیٰ کے دیدار سے مشرف ہوں گے۔ نیز اللہ تعالیٰ بھی ان کی طرف نظر کرم فرمائے گا۔
نوٹ: یاد رکھیں نوافل سے پہلے فرض نمازوں کی قضا کی ذمہ داری پوری کرنی ہوگی۔
فاتحہ اور حلوہ کھانے اور کھلانے کے فائدے:
١٤ شعبان کو گھر میں خواتین (باوضو ہوں تو بہتر ہے) حلوہ پکائیں اور آقائے دوجہاں حضور اکرم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ، خاتون جنت سیدہ فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا، سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا، حضرت سیدنا حمزہ اور حضرت اویس قرنی رضی اللہ عنہما کی خصوصیت کے ساتھ نیز دیگر صالحین ، اولیائے کاملین ، سلاسل تصوف و طریقت کے بزرگان دین، اپنے آباؤ اجداد، اعزاو اقربا (جو حالتِ ایمان پر رحلت کر گئے ہوں) اور عام مومنین کی حلوے پر فاتحہ دلائیں اور ہمسایوں میں تقسیم کریں، خصوصاً محتاج و مستحقین امداد کو حلوے کے علاوہ کچھ خیرات بھی دیں۔ مشائخ سے منقول ہے یہ ارواح اپنے عزیزوں کی جانب سے فاتحہ و نذور کے منتظر ہوتے ہیں۔ ایصالِ ثواب کے تحفے وصول کرکے خوش ہوتے ہیں اور بارگاہ الٰہی میں اپنے زندہ عزیزوں کے حسنِ خاتمہ و آخرت کے لئے سفارش بھی کرتے ہیں۔ بخاری شریف کی حدیث جلد دوم صفحہ ٨١٧ کے مطابق حلوہ کھانا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت متواتر اور سنتِ عادیہ دونوں پر عمل ہے۔ جبکہ حلوہ کھلانے سے متعلق اللہ کے پیارے حبیب ہمارے طبیب مصطفی کریم علیہ التحیۃ والتسلیم فرماتے ہیں'' جس نے اپنے مسلمان بھائی کو میٹھا لقمہ کھلایا اس کو سبحانہ و تعالیٰ حشر کی تکلیف سے محفوظ رکھے گا،۔ (شرح الصدور، للعلامہ امام سیوطی مجدد قرن نہم)
قبرستان حاضری کے آداب
مرحومین اور عزیزوں کی مغفرت کیلئے: باوضو ہو کر اور تازہ گلاب (یا دوسرے پھول) لے کر قبرستان جائیں، قبروں کے آداب اور خصوصًاقبروں کے سرہانے لوح پر لکھی آیاتِ قرآنی کا احترام کریں، قبروں پر نہ چلیں، قبروں پر آگ نہ جلائیں یعنی روشنی کے لیے موم بتی یا چراغ جلانا منع ہے ، ہر قبرستان میں شہری انتظامیہ کی ذمہ داری ہے کہ بجلی کے کھمبوں کی تنصیب کرے اور ان ہی کھمبوں پر تیز روشنی کے بلب لگائے جائیں تاکہ پورا قبرستان روشن ہو کیونکہ قبرستان بہت گنجان ہوتا ہے قبروں کے درمیان قطعاً جگہ نہیں ہوتی کہ وہاں موم بتی یا چراغ جلا سکیں لیکن بعض نادان حضرات ایسا کرتے ہیں جو شرعاً منع ہے، خوشبو کے لئے اگر بتی جلا کر قبر سے ایک فٹ دور رکھیں۔ اپنی موت کو بھی یاد رکھیں، خواتین قبرستان میں نہ جائیں ۔ قبرستان میں داخلہ کے وقت یہ دعا پڑھیں۔
اَلسَّلامُ عَلَیْکُمْ یَا اَہْلَ الْقُبُورِ الْمُسْلِمِیْنَ اَنْتُمْ لَنَا سَلَفٌ وَّ اَنَا اِنْشَاءَ اللّٰہُ بِکُمْ لَاحِقُوْنَ نَسْاَلَ اللّٰہَ لَنَا وَلَکُمُ الْعَفْوَ وَ الْعَافِیَۃِ
پھر درج ذیل درود شریف ایک مرتبہ پڑھنے کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ مُردوں پر سے ستر سال کے لئے اور چار دفعہ پڑھنے پر قیامت تک کا عذاب اٹھا لیتا ہے ۔ چوبیس مرتبہ پڑھنے والے کے والدین کی مغفرت ہوجاتی ہے اور اللہ تعالیٰ فرشتوں کو حکم دیتا ہے کہ اس کے والدین کی قیامت تک زیارت کرتے رہو۔
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلّٰہُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍا مَّا دَامَتِ الصَّلٰوۃِ
وَصَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍا مَّا دَامَتِ الرَّحْمَۃِ
وَصَلِّ عَلٰی رُوْحِ مُحَمَّدٍا فِی الْارْوَاحِ
وَصَلِّ عَلٰی صُوْرَۃِ مُحَمَّدٍا فِی الصُّوْرِ
وَصَلِّ عَلٰی اِسْمِ مُحَمَّدٍا فِی الْاَسْمَائِ
وَصَلِّ عَلٰی نَفْسِ مُحَمَّدٍا فِی النُّفُوْسِ
وَصَلِّ عَلٰی قَلْبِ مُحَمَّدٍا فِی الْقُلُوْبِ
وَصَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍا فِی القُبُوْرِ
وَصَلِّ عَلٰی رَوْضَۃِ مُحَمَّدٍا فِی الرِّیَاضِ
وَصَلِّ عَلٰی جَسَدِ مُحَمَّدٍا فِی الْاَجْسَادِ
وَصَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍا فِی التُّرَابِ
وَصَلِّ عَلٰی خَیْرِ خَلْقِہ وَ ذُرِّیَّتِہ وَ اَہْلِ بَیْتِہ
وَاَحْبَابِہ اَجْمَعِیْنَ بِرَحْمَتِکَ یَا اَرْحَمَ الرَّاحِمِیْنَ
شعبان المعظم میں وفات پانے والے مشہور اولیاء و بزرگانِ دین رحمہم اللہ
٭ حضرت بندگی شاہ لطف اللہ جونپوری ٭ مولانا قاضی سلطان محمود اعونی ١٣٣٧ھ ٭ محدث اعظم پاکستان مولاناسردار احمد لائل پوری۔
٢ شعبان المعظم
٭ حضرت مولوی شاہ ابو الحسن نصیر آبادی ١٢٧٢ھ ٭ حضرت عبدالکریم ملا فقیر اخون رامپوری ١٢٠٦ھ ٭ حضرت سید ابو الحسنات محمد احمد قادری ١١٠٨ھ ٭ حضرت شاہ بازو پشاوری۔ ٭ حضرت علامہ محمد جان بحری آبادی ١٣٣٨ھ
٣ شعبان المعظم
٭ حضرت سفیان ثوری ١٦١ھ ٭ حضرت ابو الفرح طرطوسی ۔ ٭ مولانا حکیم عبدالماجد بدایونی ٢٣٥٠ھ(رہنما تحریک پاکستان)
٤ شعبان المعظم
٭ ام المؤمنین سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا ٤٥ھ ٭ امام اعظم سید نا نعمان بن ثابت ابو حنیفہ کوفی ١٥٠ھ ٭ حضرت بدرالدین صاحب ولایت سلیمانی ٦٦٩ھ ٭ حضرت ابو سعید ابو الخیر فضل اللہ خراسانی ٤٤٠ھ ٭ حضرت محمد افضل رازی نیشا پوری ٤٥٨ھ ٭ حضرت شاہ نور الحق تپاں پھلواری١٢٣٣ھ ٭ حضرت علامہ سید امیر اجمیری خوشاب سرگودھا ١٣٩٠ھ
٥ شعبان المعظم
٭ حضرت مولانا رضی الدین عبدالغفور لاری ہراتی ٩١٢ھ ٭ حضرت علی خواص جعفربن نصیر ٣٤٨ھ ٭ حضرت خواجہ فحر الدین ابو الخیر چشتی (بن خواجہ خواجگان خواجہ غریب نواز ) ٦٦١ھ ٭ حضرت شیخ کمال خجندی ٨٠٣ھ ٭ حضرت مولانا محمد یحییٰ قادری نقشبندی ١٣١٥ھ ٭ حضرت سیدشاہ محمد غوث بدایونی ١٢٥٥ھ ٭ حضرت غلام محی الدین امیر عالم مارہروی ٭ حضرت غائب شاہ غازی کراچی منوڑہ ٭ پیر غلام مرتضیٰ سرہندی مجددی (ملیر کراچی، رہنما تحریک پاکستان) ١٤٠٢ھ
٦ شعبان المعظم
٭ حضرت شیخ زاہد بخاری ٨٩٣ھ علیہ الرحمۃ ٭ حضرت نور الدین کشمیری ٭ حضرت شیخ سید محمد کالپی شریف ٭ حضرت شاہ انوار الحق فرنگی محلی١٢٣٦ھ ٭ حضرت مولانا قادر بخش سہسرامی ١٣٣٧ھ ٭ حضرت مولانا نذیر احمد خجندی میرٹھی ١٣٥٥ھ
٧ شعبان المعظم
٭ حضرت شیخ ابو الیسر ثعلبی ٢٩٧ھ ٭ حضرت شاہ ہاشم لکھنوی ١١٣٥ھ ۔ ٭ حضرت سید اسد علی شاہ لکھنوی ٭ حضرت شیخ ابو سعید مبارک مخزومی ٭ مخدوم ابو القاسم نور الحق ٹھٹھوی ١١٣٨ھ ٭ علامہ ابو الحسنات محمد احمد قادری (مجاہد تحریک ختم نبوت، مصنف تفسیر حسنات، شرح قصیدہ بردہ شریف) ١٣٨٠ھ
٨ شعبان المعظم
٭ حضرت خواجہ شمس الدین محمد حافظ شیرازی ٧٢٩ھ ٭ حضرت مولانا رحیم بخش آروی ١٣٤٤ھ ٭ حضرت مولانا امام الدین سیالکوٹی نقشبندی ١٣٧٣ھ/١٢اپریل١٩٥٤ئ ٭ شیخ القرآن حضرت علامہ محمد عبدالغفور ہزاروی ١٣٩٠ھ ۔
٩ شعبان المعظم
٭ حضرت شیخ ابو علی ترکمانی ٢٦٧ھ ٭ حضرت قاضی احمد علی ١٢٣١ھ ٭ حضرت ابو القاسم جعفر مقری نیشاپوری ٣٧٨ھ ٭ حضرت مکیل بن زیاد ١١١ھ ٭ حضرت ابو منصور محمد انصاری ٤٣٠ھ حضرت شیخ المعمر بابا یوسف کوہی ٩٤٥ھ۔ ٭ پیر محی الدین لال بادشاہ مکھڑ شریف اٹک (راہنما تحریک پاکستان) ١٣٨٣ھ
١٠ شعبان المعظم
٭ حضرت سید عبداللطیف قادری ١١٤٩ھ ٭ حضرت محمد حسن چشتی ہراتی ١٠٠٧ھ ٭ حضرت مولانا غلام دین لاہوری ١٣٩٠ھ۔ ٭ حضرت ابراہیم شاہ بخاری، کھارادر، کراچی۔ ٭ شیخ محمد معصوم سرہندی دہلوی ١٣١٤ھ
١١ شعبان المعظم
٭ حضرت ابو سعید اعرابی ٣٤١ھ ٭ حضرت شیخ ابو محمد جاربردے ١٤٧ھ ٭ حضرت خواجہ ابراہیم بلخی ٦٨٤ھ ٭ حضرت ابو اعلیٰ کاتب مصری ٣٤٦ھ ٭ حضرت شیخ حفص مدنی ٣٢٧ھ ٭ حضرت نجیب الدین علی برغش شیرازی ٦٧٨ھ ۔ ٭ حضرت شاہ عبدالباری صابری امروہی ١٢٢٦ھ ٭ پیر سید سردار احمد شاہ ، رحیم یار خان ١٣٥١ھ/١٩٣١ئ ٭ حضرت علامہ مفتی محمد سعید بن صبغت اللہ محمد غوث محدث مدراس ١٣١٤ھ
١٢ شعبان المعظم
٭ حضرت ابو یعقوب طبری١٩٧ھ ٭ حضرت سید ابو المعالی لاہوری ٦٢٠ھ ٭ حضرت خواجہ حسین بازیاری بصری ٣٠٢ھ ٭ حضرت خواجہ خاوند محمود ١٠٥٢ھ ٭ حضرت سید داؤود مکی ٣٢١ھ ٭ حضرت میر صالح کشفی اکبر آبادی ١٠٦٠ھ ٭ حضرت سید عبد الوہاب گمانی بغدادی ٥٩٩ھ ٭ حضرت ابو الحسن علی مکی ٢٤٧ھ ٭ حضرت محمد فضل اللہ بن نصر اللہ مکی ٤٩٥ھ ٭ حضرت شاہ کبیر الحسن کوفی ٨٤٧ھ ٭ حضرت سید محمد بن محمود ٦١٦ھ ٭ حضرت سید محمد قادری بغدادی ٧٢٠ھ
١٣ شعبان المعظم
٭ حضرت شاہ رکن الدین کریمی ٧٩٩ھ ٭ حضرت شیخ سیف الدین بخاری ٦٥٨ھ ٭ حضرت شیخ سیف الدین خلوتی ٧٨٣ھ ٭ حضرت شمس الائمہ عبدالعزیز حلوائی بخاری ٤٤٨ھ ٭ حضرت شاہ عبدالجلیل بغدادی ١١٥٢ھ ٭ حضرت سید فرید بخش بھکری ٨١٥ھ ٭ حضرت شاہ قطب الدین بہاری ٧٨٩ھ ٭ حضرت شاہ کمال کیتھلی١٠٠٣ھ ٭ حضرت سید محمد بن مہدی ٧٩٧ھ ۔ ٭ حضرت ابو مزاحم شیخ ابراہیم شیرازی ٣٤٨ھ ٭ سلطان الواعظین حضرت علامہ عبد الاحد محدث پیلی بھیتی ١٣٥٢ھ ٭ حضرت قائم الدین قلندر مجذوب(بکیر شریف ٹنڈو الہ یار ١٢١٥ھ ٭ مولانا نور احمد حنفی پسروری سیالکوٹی ١٣٤٨ھ
١٤ شعبان المعظم
٭ ام المؤمنین سیدہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا ٤٤ھ ٭ حضرت شیخ ابی العزائم ٦٩٩ھ ٭ حضرت شیخ ابو عبد اللہ مدنی ٢٠٩ھ ٭ حضرت شیخ احمد جعفر ٦٩٩ھ ٭ حضرت شیخ برہان مکی ٣١٧ھ ٭ حضرت سید طہٰ خراسانی بغدادی ٨٦٦ھ ٭ حضرت مخدوم حافظ عبدالغفور پشاوری ١١١٦ھ ٭ حضرت سید عبدالعزیز تباعی مدنی ٩٤١ھ ٭ حضرت عبدل حنیف رسول شاہی دہلوی ١٢٤٥ ھ ٭ حضرت شیخ فضالت دیلمی٢٧٠ھ ٭ حضرت محمد اکبر مسعود ١١٩٨ھ ٭ حضرت شاہ نور العلی اکبر آبادی ٭ حضرت ابو زکریا یحییٰ بن غوث الاعظم ٦٠٠ھ ٭ حضرت یوسف بن حسین رازی ٣٠٤ھ ۔ ٭ حضرت شیخ علی بن محمد فاضل سورتی ١٣١٥ھ ٭
١٥ شعبان المعظم
٭ حضرت بایزید طفیور بسطامی ٢٦١ھ ٭ حضرت شاہ تاج العلا اکبر آبادی ٭ حضرت شیخ عبدالطیف کشمیری ١١٣٤ھ ٭ حضرت عبید اللہ کرخی ٣٤٠ھ ٭ حضرت علاؤالدین علی واسطی٥٦١ھ ٭ حضرت علی بن حمید گردویہ مصری ٦١٢ھ ٭ حضرت فتح خراسانی بغدادی ٢٧٣ھ ٭ حضرت شاہ محمد یحییٰ بغدادی ٦١٧ھ ٭ ابو الفداء امام اسماعیل بن کثیر دمشقی ٧٧٤ھ ٭ حضرت شیخ نظام الدین بن شیخ عثمان ١٠١٨ھ ۔
١٦ شعبان المعظم
٭ حضرت ابو بکر الداقی ٣٥٩ھ ٭ حضرت شاہ ابو العباس ٧٠٣ھ ٭ حضرت رویم رومی ٢٨٥ھ ٭ حضرت سید احمد عظیم آبادی ٦٩٧ھ ٭ حضرت شرف الدین قتال بغدادی ٧١١ھ ٭ حضرت سید علاؤالدین مدنی ٦٩٩ھ ٭ حضرت سید علی ترمذی ٧٩٩ھ ٭ حضرت سید عمر گیلانی لاہوری ١١١٥ھ ٭ حضرت شیخ غلام غوث سندھی قادری ١٢٥٧ھ ٭ حضرت سید نور بخش گجراتی ٨٠٠ھ ٭ حضرت محمد ابراہیم ترمذی ٣٧٠ھ ٭ حضرت مومن سواتی ١١١٣ھ ۔ ٭ حضرت پیر سید جماعت علی شاہ لاثانی١٣٥٨ھ
١٧ شعبان المعظم
٭ حضرت شیخ اسحق مغربی ٧٧٦ھ ٭ حضرت اسمٰعیل نیشاپوری ٣٦٦ھ ٭ حضرت سید عبدالفتاح گجراتی ٭ حضرت شیخ علی صوفی طبری ٩٠٨ھ ۔ ٭ حضرت مولانا سکندر علی خالصپوری ١٣١٤ھ ٭ پیر سید محمد فضل شاہ جلال پوری (امیر حزب اللہ) ١٣٨٦ھ
١٨ شعبان المعظم
٭ حضرت سید ابو صالح مدنی٦٩٩ھ ٭ حضرت سید عبد الوہاب ٧٩٩ھ ٭ حضرت ابو حفص عمرو حداد ٢٦٥ھ ٭ حضرت لعل شہباز قلندر٦٧٣ھ ٭ علامہ کرم الدین جہلمی ٭ حضرت سید احمد قادری ١٣٦٥ھ۔ ٭ حضرت سید حاجی نور علی جیلانی (نورائی شریف) ١٣٨٣ھ
١٩ شعبان المعظم
٭ حضرت شیخ ابو بکر اشبیلی٢٩٢ھ ٭ حضرت شیخ ابو بکر موافری ٤٩٩ھ ٭ حضرت احمد خراز ٢٨٦ھ ٭ حضرت شیخ اوحدی اصفہانی ٧٣٧ھ ٭ حضرت شیخ شمس الدین ترک٧١٥ھ ٭ حضرت ابو عبداللہ محمد بن سعید مغربی ٢٧٩ھ ۔
٢٠ شعبان المعظم
٭ حضرت سلطان شمس الدین التمش (فرمانر وائے ہند)٦٣٣ھ ٭ حضرت خواجہ قوام الدین لکھنوی ٨٤٠ھ ٭ حضرت علامہ عبد الکافی ناروی الہ آبادی ١٣٥٠ھ (معروف عیسائی ادیب جارج برناڈ شا کے بھتیجے نے ١٣٤٠ھ/١٩٢١ء میں آپ کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا)
٢١ شعبان المعظم
٭ حضرت شیخ ابو طاہر عبدالرزاق اندلسی٣٢٥ھ ٭ حضرت احمد بن عطا شامے ٣٦٩ھ ٭ حضرت لعل شہباز قلندر عثمان مروندی ٦٧٣ھ ٭ حضرت شیخ سلطان ترکمان دمشقی ٧١٤ھ ٭ حضرت خواجہ عبدالقادر قلندر ثالث ٨٠٧ھ ٭ حضرت شاہ جمال کوروی ٨١٢ھ ٭ حضرت ابو نصر محمود بلخی ٨٦٥ھ ۔ ٭ حضرت خواجہ آدم امکنگی ١٠٠٨ھ ٭ علامہ عبد الحکیم فرنگی محلی ١٢٨٥ھ ٭ مولانا رضا علی حنفی بنارسی ١٣١٢ھ ٭ حضرت مولانا مفتی علی محمد مھیری (مترجم سندھی قصیدہ بردہ شریف ، مجموعہ فتاوی دو جلد) ١٣٦٧ھ
٢٢ شعبان المعظم
٭ حضرت ابو علی مروزی ٤٣٤ھ ٭ حضرت ابو البیان ابن الحواری ٥٥١ھ ٭ حضرت شیخ ابو الفرح بغدادی ٥٧٣ھ ٭ حضرت عبدالقادر مکی ٥٨٢ھ ٭ حضرت سید کبیر الدین شاہ دولہ گجراتی ٦٠٣ھ ٭ حضرت شیخ علاؤالدین ابدال مثالی ٨٤٥ھ ٭ حضرت محمد بھکر٩٨٩ھ ۔ ٭ حضرت سرمد دہلوی ١٠٧٠ھ ٭ حضرت فتح قلندر جونپوری ١١١٨ھ ٭ حضرت عبدالوالی لکھنوی ١٢٧٩ھ ٭ حضرت علامہ محمد شاہ بن حسن شاہ محدث رامپوری ١٣٣٨ھ
٢٣ شعبان المعظم
٭ حضرت شیخ رضا رفیقی کشمیری ١٢٧٦ھ ٭ حضرت شیخ محمد عرف سید مرتضیٰ حسینی بلگرامی ثم مصری ١٢٠٥ھ ۔ ٭ حضرت علامہ شیخ محمد بن ہاشم فاضل سورتی ١٣١٥ھ
٢٤ شعبان المعظم
٭ حضرت سید عتیق اللہ چشتی ١١٣١ھ ٭ سید محمد اصغر علوی قادری رضوی١٣٩٧ھ(شیخوپورہ) ٭ پیر محمد شاہ بھیروی (والد پیر محمد کرم شاہ الازہری) ١٣٧٦ھ
٢٥ شعبان المعظم
٭ حضرت شیخ عبداللہ بن وہب (جامع موطا امام مالک)١٩٧ھ ٭ حضرت سید ابراہیم المسبوع الرسوقیہ ٣٧٦ھ ٭ حضرت شیخ صدر الدین قونیوی ٦٢٧ھ ٭ حضرت مولانا صفی الدین سرہندی ١٢٢٨ ھ ٭ حضرت شیخ عبدالمجید ہروی ٤٥٣ھ ٭ حضرت قطب الدین قلندری ٨٨٠ھ ٭ حضرت حاجی شاہ محمد سعید اجمیری ١٢٢٥ھ ۔ ، ٭ حضرت خواجہ محمد حسین چشتی صابری رامپوری ١٣١٢ھ ٭ حضرت مولانا تاج الدین ١٣٢٧ھ/فروری ١٩٢٩ئ ٭ حضرت مولانا تاج الدین ١٣٢٧ھ/٦ فروری ١٩٢٩ئ ٭ حضرت خواجہ غلام علی جان مجددی (شہید مکھڑ ضلع حیدرآباد )١٣٩٧ھ
٢٦ شعبان المعظم
٭ حضرت شیخ ابو الفیض ثوبان بن ابراہیم ذوالنون مصری (رئیس الصوفیائ) ٢٤٦ھ ٭ حضرت شیخ جمال دہلوی ١١٥١ھ ٭ حضرت میر سید محمد کالپوری ابوالعلائی ١٠٧١ھ ۔
٢٧ شعبان المعظم
٭ حضرت شیخ ابو سلیمان دارانی ٢١٥ھ ٭ حضرت شاہ بہلول جالندھری صابری ١١٧٠ھ ٭ حضرت شاہ بہرام چشتی ٨٥٤ھ ٭ حضرت شیخ سیف الدین دہلوی ٩٩٠ھ ٭ حضرت شیخ عبدالعزیز مدنی ١٠٧ھ ٭ حضرت عبدالواسع مکی ٥٩٤ھ ٭ حضرت عبدالخالق گجراتی ١٠٧٨ھ ٭ حضرت شیخ علی بن خلیل مرصعی ٢٩٨ھ ٭ حضرت ابو الحسن علی ہمدانی بصری ٤١٤ھ ٭ حضرت شیخ موسیٰ دیفری ٤٥٩ھ ٭ حضرت شیخ ابو حفص وجیہ الدین سہروردی ٥٦٦ھ ۔
٢٨ شعبان المعظم
٭ حضرت شاہ شیخ بلاول لاہوری ١٠٤٦ھ ٭ حضرت شاہ کبیرجونپوری سہروردی ٩٦٢ھ ۔ ٭ علامہ محمد عالم امرتسری ثم مدنی ١٣٦٢ھ ٭ حضرت علامہ سید اختصاص حسین پھپھوندوی ١٣٦٤ھ ٭ شیخ محمود بن محمد سورتی ١٣١٥ھ ٭ پیر سید سعید شاہ بنوری کوہاٹی (راہنما تحریک پاکستان) ١٣٩٠ھ
٢٩ شعبان المعظم
٭ حضرت اسمٰعیل علی نبینا علیہ الصلوٰۃ والسلام ٭ حضرت شاہ نعمت اللہ قادری پھلواری شریف
٣٠ شعبان المعظم
٭ حضرت شیخ فضل نیاز ٤٨١ھ ٭ حضرت مولانا عبدالحکیم سیالکوٹی ١٠٦٨ھ
رضی اللہ تعالیٰ عنہم و رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین
— — —
تحقیق: علامہ نسیم احمد صدیقی نوری قادری مدظلہ عالی
پیشکش: انجمن ضیائے طیبہ ، کراچی ، پاکستان
--
Shahzad Afzal
http://www.pakistanprobe.com
No comments:
Post a Comment