حضرت سید ابو محمد عبد اللہ الاشتر
(المعروف) عبد اللہ شاہ غازی رحمتہ اللہ علیہ
(المعروف) عبد اللہ شاہ غازی رحمتہ اللہ علیہ
شجرہ نسب:
آپ کے شجرہ مبارک پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عبداللہ شاہ غازی رحمتہ اللہ علیہ کتنی قدیم ہستیوں میں سے ہیں۔ آپ ہیں سید ابو محمد عبداللہ الاشتر (عبداللہ شاہ غازی رحمتہ اللہ علیہ) بن سید محمد ذوالنفس الزکیہ بن سید عبداللہ المحض بن سید مثنیٰ بن سیدنا حضرت امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن حضرت سیدنا امیر المومنین علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ الکریم۔ حضرت سیدنا حسن مثنیٰ کی شادی حضرت سیدہ فاطمہ صغریٰ بنت سیدنا حضرت امام حسین سے ہوئی اسی وجہ سے آپ حسنی حسینی سید ہیں۔
تعلیم:
تحقیقات سے پتہ چلا ہے کہ آپ کی تعلیم و تربیت آپ کے والد صاحب کے زیر سایہ مدینہ منورہ میں ہی ہوئی۔ آپ علم حدیث پر عبور رکھتے تھے۔ اور کچھ مورخین نے تو آپ کو محدث تک بھی لکھا ہے۔
بنو امیہ کی حکومت زوال پذیر ہوچکی تھی جب 138ھ میں آپ کے والد صاحب نے مدینہ منورہ سے علوی خلافت کی تحریک شروع کی اور اپنے بھائی حضرت ابراہیم بن عبداللہ کو اس ضمن میں بصرہ روانہ کیا اس زمانے میں سادات کے ساتھ انتہائی ظلم کا رویہ روا رکھا گیا تھا۔ اس ظلم کے کئی ایک واقعات معروف ہیں جن میں حضر ت بن ابراہیم کا واقعہ خاص طور پر مشہور ہے۔ جب آپ کو انتہائی بے دردی کے ساتھ دیوار میں زندہ چن دیا گیا۔ یہ دیوار آج بھی بغداد میں مشہور ہے۔ حضرت بن ابراہیم انتہائی وجیہ اور حسین و جمیل تھے جس کی وجہ سے آپ کا لقب دیباج مشہور ہوا۔ عبداللہ شاہ غازی رحمتہ اللہ علیہ کے والد صاحب نے آپ کو اپنے بھائی حضرت ابراہیم کے پاس بصرہ بھیجا اور آپ وہاں سے ہوتے ہوئے سندھ کی جانب روانہ ہوئے۔ تاریخ الکامل' جلد پنجم میں لکھا ہے کہ آپ خلیفہ منصور کے دور میں سندھ تشریف لائے۔ تحفتہ الکریم کے مصنف شیخ ابو تراب نے آپ کی سندھ میں موجودگی خلیفہ ہارون رشید کے دور سے منسوب کی ہے۔
آپ کی سندھ آمد کے ضمن میں دو قسم کے بیان تاریخ سے ثابت ہیں۔ ایک یہ کہ آپ تبلیغ اسلام کیلئے تشریف لائے تھے اور دوسرے یہ کہ آپ علوم خلافت کے نقیب کی حیثیت سے (ملاحظہ ہو تاریخ الکامل لا بن الشت' ابن خلدون' طبری اور میاں شاہ مانا قادری کی تحریریں) تاجر کے روپ میں آئے تھے۔ تاجر اس لئے کہا گیا کہ آپ جب سندھ آئے تو اپنے ساتھ بہت سے گھوڑے بھی لائے تھے۔ آپ نے یہ گھوڑے اپنے کم و بیش بیس مریدوں کے ہمراہ کوفہ سے خریدے تھے۔ آپ کی آمد پر یہاں کے مقامی لوگوں نے آپ کو خوش آمدید کہا اور سادات کی ایک شخصیت کواپنے درمیان پاکر بہت عزت اور احترام کا اظہار کیا۔ آپ بارہ برس تک اسلام کی تبلیغ میں سرگرداں رہے اور مقامی آبادی کے سینکڑوں لوگوں کو مشرف با اسلام کیا۔
یہ تو ہے کہانی ظاہری حالات کی جن کو تاریخ الکامل لابن الشتر اور ابن خلدون' طبری وغیرہ میں قلمبند کیا ہوا ہے لیکن ایک عظیم ہستی جو حسنی حسینی سید ہے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی اولاد ہے باطنی شاہسواری سے کیسے خالی ہوسکتی تھی۔ ایک زمانہ کب سے ان کے فیض سے سیراب ہورہا ہے۔ ان کی باطنی زندگی پر ابھی کسی نے کچھ نہیں لکھا شاید اس وجہ سے کہ ان کی اپنی تحریریں یا ان کے کسی ہم عصر کی ان کے بارے میں کوئی تحریریں دستیاب نہیں ہیں اور شاید اس وجہ سے کہ وہ بہت پہلے کے اولیائے کرام میں سے ہیں اور دوسرے اس وجہ سے بھی کہ اس زمانے میں سلسلہ ہائے تصوف آج کی طرح نہیں تھی۔ تصوف کے سلسلوں کی زیادہ شہرت اور تشہیر حضرت عبدالقادر جیلانی رحمتہ اللہ علیہ اور حضرت معین الدین چشتی رحمتہ اللہ علیہ اور دیگر بزرگوں کے آنے کے بعد ہوئی۔ ان کا مزار پر انوار مرجع خلائق بنا ہوا ہے یہ ویسے تو نہیں ہے ولایت تو حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی مرہون منت ہے۔ وہی اس کا منبع ہیں یہ کسی نے نہیں لکھا اور نہ کہا کہ وہ جو امانت حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے سینہ بسینہ چلی وہ ان کے حصہ میں نہیں آئی۔ شہادت ان کے آباؤ اجداد میں چلی آرہی ہے ۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم سے لے کر غازی شاہ رحمتہ اللہ علیہ صاحب کے والد اور چچا شہید ہوئے۔ خود آپ نے بھی شہادت کا رتبہ پایا اپنی جان سے زیادہ کیا چیز ہے جو اللہ تعالیٰ کی راہ میں قربان کی جاسکتی ہے یہ تو شہادت جلی ہے مگر کیا کسی نے لکھا ہے کہ وہ شہید خفی بھی ہیں؟ جب وہ حق ہوچکے تو راہ حق میں شہید ہوئے دولت سرمدی کا متحمل وہی ہوسکتا ہے جس کو فطرت اس کا اہل سمجھتی ہے۔
والد کی شہادت:
حضرت عبداللہ شاہ غازی رحمتہ اللہ علیہ کے سندھ قیام کے دوران گورنر سندھ کو خبر آئی کہ آپ رحمتہ اللہ علیہ کے والد صاحب نے مدینہ منورہ میں اور ان کے بھائی حضرت ابراہیم نے بصرہ میں عباسی خلافت کے خلاف بغاوت کردی ہے۔ 145ھ میں یہ اطلاع آئی کہ آپ کے والد حصرت سید محمد نفس ذکیہ مدینہ منورہ میں 15 رمضان المبارک کو اور اسی سال آپ کے چچا حضرت ابراہیم بن عبداللہ 25 ذیقعد (14فروری 763ء) کو بصرہ میں شہید کردیئے گئے۔
گورنر سندھ کی بیعت اور آپ کی تعظیم:
حضرت عبداللہ شاہ غازی رحمتہ اللہ علیہ کے والد صاحب اور چچا کی شہادت کے بعد عباسی خلافت کے مرکز (خلیفہ منصور) سے آپ کی گرفتاری کے احکامات بھی صادر ہوئے۔ مگر چونکہ آپ کے حصے میں میدان جنگ میں شہادت لکھی گئی تھی لہذا آپ کی گرفتاری تو عمل میں نہیں آسکی۔ حضرت حفص بن عمر گورنر سندھ آپ کی گرفتاری کے معاملے کو مسلسل ٹالتے رہے۔ ان کا خیال تھا کہ اس طرح کچھ وقت گزر جائے گا اور خلیفہ منصور غازی شاہ رحمتہ اللہ علیہ کی گرفتاری کے معاملے کو بھول جائے گا مگر جو لوگ اقتدار سے لگاؤ رکھتے ہیں وہ کسی طرح کا خطرہ مول نہیں لیتے بلکہ چھوٹے سے چھوٹے خطرے کو بھی برداشت کرسکتے۔ چنانچہ خلیفہ منصور کے دل سے ہرگز بھی عبداللہ شاہ غازی رحمتہ اللہ علیہ کی گرفتاری کا خیال ماند نہیں پڑا۔ حالانکہ گورنر سندھ حضرت حفص بن عمر نے اہل بیت سے محبت کے جذبے کے تحت یہ بھی خلیفہ کو کہا کہ حضرت عبداللہ شاہ غازی رحمتہ اللہ علیہ میری مملکت کی حدود میں نہیں ہیں لیکن خلیفہ کو اس پر بھی اطمینان نہیں ہوا۔
ساحلی ریاست آمد:
گورنر سندھ حضرت حفص نے اپنی محبت' عقیدت اور سادات سے لگاؤ اور بیعت کرلینے کے بعد آپ کو بحفاظت ایک ساحلی ریاست میں بھیج کر وہاں کے راجہ کا مہمان بنایا۔ یہ راجہ اسلامی حکومت کا اطاعت گزار تھا۔ اس نے آپ کی آمد پر آپ کو خوش آمدید کہا اور انتہائی عزت اور قدر و منزلت سے دیکھا۔ آپ کو چار سال یہاں ان کے مہمان رہے۔ اس عرصہ میں آپ نے پہلے کی طرح اسلام کی تبلیغ جاری رکھی اور سینکڑوں لوگوں کو اسلام سے روشناس کرایا۔ لاتعداد لوگ آپ کے مریدین بن کر آپ کے ساتھ ہوگئے۔
سندھ میں اسلام کی تبلیغ:
کہاں سندھ کہاں سعودی عرب ۔ کتنی مسافت ہے۔ کتنا لمبا سفر ہے۔ صحابہ کرام کے بعد کوئی اسلام کی تعلیم دینے یا تبلیغ کرنے کیلئے سندھ نہیں آیا تھا۔ یہ بات بھی تاریخ ہی سے ثابت ہوتی ہے کہ اس کے بعد سندھیوں کے بنجر دل کی زمین میں سب سے پہلے حضرت عبداللہ شاہ غازی رحمتہ اللہ علیہ نے ہی اسلامی بیج بویا پھر اس کی آبیاری کی اور محبت' اخوت اور بردباری سے دلوں کو گرمایا اور ایمان کی زرخیزی سے روشناس کروایا۔ اس لئے کہ جو کام ان کے ذمہ تھا وہ صرف ظاہر سے نہیں ہوسکتا تھا۔ تاریخ کو رخ عطا کرنے والے ظاہر کے ساتھ باطن کی دنیا کے شاہسوار بھی ہوتے ہیں۔ جن کا ظاہر پر کم اور باطن پر زیادہ زور اور توجہ ہوتی ہے۔
دراصل ان ہستیوں کیلئے اس دارلعمل میں جس جگہ کا انتخاب کیا ہوتا ہے وہاں ان کیلئے اسباب بھی مہیا ہوتے ہیں۔ (گورنر سندھ حضرت عمر بن حفص کا مطیع ہونا۔ اور آپ رحمتہ اللہ علیہ کی گرفتاری کے خلیفہ منصور کے احکامات ٹالنا۔ آپ کو بحفاظت دوسری ریاست میں بھیجنا یہ سب غیبی اعانت تھی اور آپ کے عمل کی تائید تھی) اگرچہ عباسی خلیفہ منصور آپ سمیت تمام سادات کے قتل کے در پہ تھا اس نے اطلاع ملنے پر بارہا حضرت عبداللہ شاہ غازی رحمتہ اللہ علیہ کو گرفتار کرنے کے احکامات دیئے لیکن قدرت نے جو کام آپ سے لینا تھا اس کیلئے پورا پورا اہتمام کیا ہوا تھا۔ ایک ایسا گورنر سندھ میں متعین تھا جو آپ کی تعظیم اور خیال کرتا تھا اور کسی قیمت پر آپ کو تکلیف نہ پہنچانا چاہتا تھا بلکہ ان نیک بخت گورنر یعنی عمر بن حفص نے آپ کے ہاتھ پر بیعت بھی کرلی تھی اور در پردہ آپ کی حمایت کرتا تھا۔
سیر و شکار:
تاریخ سے ثابت ہے کہ اس زمانے میں جب آپ سیر اور شکار کی غرض سے کہیں جاتے تھے تو شان و شوکت اور کروفر سے اور سازو سامان بھی ساتھ ہوتا تھا جس سے آپ کی شان و شوکت کا اظہار ہوتا تھا۔ کیوں نہ ہو حضرت عبداللہ شاہ غازی رحمتہ اللہ علیہ کس نسب کے چشم و چراغ تھے۔ یہ غالباً اس لئے بھی تھا کہ آپ کی درویشی پر امارت کا پردہ بھی پڑا رہے۔ اورجو امانت آپ کے سپرد تھی آ پ کے سینے میں محفوظ و مخفی رہے۔
بھائی:
یہ بھی باور کرانا ضروری ہے کہ آپ کے علاوہ آپ کے ایک دوسرے بھائی بھی ہیں وہ بھی بہت بڑے ولی تھے۔ انہوں نے بھی اسلام کی گراں قدر خدمات انجام دیں ہیں۔ آپ کا مزار مراکش میں ہے اور وہاں کا سب سے معروف مزار ہے۔ اور وہاں مرجمع' خلائق بنا ہوا ہے۔ اس کا تذکرہ بھی تاریخ اسلام میں موجود ہے۔
حکومت دو قسم کی ہوتی ہے ایک خطہ پر اور دوسری حکومت جو حقیقی حکومت ہے وہ قلوب پر ہوتی ہے عبداللہ شاہ غازی رحمتہ اللہ علیہ کی حکومت ظاہر و باطن دونوں پر قائم ہے۔ سارے دفتر ان کے ہیں جہاں تمام زائرین کی مرادوں اور دعاؤں کی عرضیاں موصول کی جاتی ہیں اور پھر ان پر احکامات صادر ہوتے ہیں۔ ثبوت یہ ہے کہ اگر زائرین کی مرادیں پوری نہ ہورہی ہوں تو پھر یہ جم غفیر کیسا۔ جوہر آنے والے دن کے ساتھ بڑھ رہا ہے۔ جمعرات کو تو آپ رحمتہ اللہ علیہ کے مزار کی سیڑھیاں بھی چڑھنا دشوار ہوتا ہے۔ عام ایام میں بھی زائرین کا تانتا بندھا رہتا ہے ۔ عبداللہ شاہ غازی رحمتہ اللہ علیہ کی باطنی حکومت کا حال کہاں سے معلوم ہوگا کس نے اس پر لکھا ہے کس لائبریری اور دفتر سے یہ تفصیل موصول ہوگی سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدیث مبارک ہے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ میرے امتی بنی اسرائیل کے نبیوں کے ہم مرتبہ ہونگے۔
یہ وہی ہیں جنہوں نے اپنی زندگی امت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیلئے وقف کی ہوگی۔ یہ وہی ہیں جن کو غم امت لاحق ہوگا۔ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیروی میں انہوں نے وہی کچھ کیا ہوگا جو نبیوں نے کیا۔
وفات:
۲۰ ذی الحج ١٥١ھ میں آپ علیہ الرحمہ پردہ فرما کر اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ کراچی کے ساحلی علاقے کلفٹن میں آپ علیہ الرحمہ کا مزار پر انوار مرجع ہر خاص و عام ہے اور اپنی نورانیت اور برکت سے اس شہر کو خصوصا اور پورے پاکستان کو عموما اپنی رحمت میں لیے ہوئے ہے۔
یہ وہی ہیں جنہوں نے اپنی زندگی امت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیلئے وقف کی ہوگی۔ یہ وہی ہیں جن کو غم امت لاحق ہوگا۔ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیروی میں انہوں نے وہی کچھ کیا ہوگا جو نبیوں نے کیا۔
وفات:
۲۰ ذی الحج ١٥١ھ میں آپ علیہ الرحمہ پردہ فرما کر اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ کراچی کے ساحلی علاقے کلفٹن میں آپ علیہ الرحمہ کا مزار پر انوار مرجع ہر خاص و عام ہے اور اپنی نورانیت اور برکت سے اس شہر کو خصوصا اور پورے پاکستان کو عموما اپنی رحمت میں لیے ہوئے ہے۔
--
Shahzad Afzal
http://www.pakistanprobe.com
No comments:
Post a Comment