اسلامی سال کا بارہواں مہینہ ۔۔۔ ذو الحجہ شریف
اس ماہ کی آٹھویں تاریخ کو یومِ ترویہ کہتے ہیں ۔ کیوں کہ حجاج اس دن اپنے اونٹوں کو پانی سے خوب سیراب کرتے تھے۔ تاکہ عرفہ کے روز تک ان کو پیاس نہ لگے ۔ یا اس لئے اس کو یوم ترویہ (سوچ بچار) کہتے ہیں کہ سیدنا حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیٰ نبینا و علیہ الصلوٰۃ والسلام نے آٹھویں ذی الحجہ کو رات کے وقت خواب میں دیکھا تھا کہ کوئی کہنے والا کہہ رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ تجھے حکم دیتا ہے کہ اپنے بیٹے کو ذبح کر۔ تو آپ نے صبح کے وقت سوچا اور غور کیا کہ آیا یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے یا شیطان کی طرف سے ۔ اس لئے اس کو یومِ ترویہ کہتے ہیں ۔
اور اس کی نویں تاریخ کو عرفہ کہتے ہیں۔ کیوں کہ سیدنا حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جب نویں تاریخ کی رات کو وہی خواب دیکھا تو پہچان لیا کہ یہ خواب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے ۔ اسی دن حج کا فریضہ سر انجام دیا جاتا ہے ۔
دسویں تاریخ کو یوم نحر کہتے ہیں ۔ کیوں کہ اسی روز سیدنا حضرت اسماعیل علیہ الصلوٰۃ والسلام کی قربانی کی صورت پیدا ہوئی ۔ اور اسی دن عام مسلمان قربانیاں ادا کرتے ہیں۔
اس ماہ کی گیارہ تاریخ کو " یوم القر" اوربارہویں، تیرہویں کو " یوم النفر" کہتے ہیں اور اس ماہ کی بارہویں تاریخ کو حضور سراپا نور شافع یوم النشور صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ سے بھائی چارہ قائم فرمایا تھا۔ (فضائل الایام والشہور صفحہ ٤٥٩۔٤٦٠)
ذوالحجہ کا مہینہ چار برکت اور حرمت والے مہینوں میں سے ایک ہے ۔ اس مبارک مہینہ میں کثرتِ نوافل، روزے، تلاوت قرآن، تسبیح و تہلیل، تکبیر و تقدیس اور صدقات و خیرات وغیرہ اعمال کا بہت بڑا ثواب ہے ۔ اور بالخصوص اس کے پہلے دس دنوں کی اتنی فضیلت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس عشرہ کی دس راتوں کی قسم یاد فرمائی ہے ۔ چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَالْفَجْرِ o وَلَیَالٍ عَشْرٍ o وَالشَّفْعِ وَالْوَتْرِ o وَالَّیْلِ اِذَا یَسْرِ o
قسم ہے مجھے فجر کی عیدِ قربان کی اور دس راتوں کی جو ذوالحجہ کی پہلی دس راتیں ہیں ۔ اور قسم ہے جفت اور طاق کی جو رمضان مبارک کی آخری راتیں ہیں، اور قسم ہے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کے معراج کی رات کی۔
اس قسم سے پتہ چلتا ہے کہ عشرہ ذی الحجہ کی بہت بڑی فضیلت ہے۔ (فضائل الایام والشہور صفحہ ٤٦٣)
حدیث ١:
عن أم سلمة - رضي الله عنها - قالت : قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم - : إذا دخل العشر ، وأراد بعضكم أن يضحي فلا يمس من شعره وبشره شيئا ، وفي رواية : فلا يأخذن شعرا ، ولا يقلمن ظفرا ، وفي رواية : من رأى هلال ذي الحجة وأراد أن يضحي ، فلا يأخذ من شعره ولا من ظفاره . رواه مسلم
سیدہ حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول خدا حبیب ِ کبریا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کہ جس وقت عشرہ ذی الحجہ داخل ہوجائے اور تمہارا کوئی آدمی قربانی کرنے کا ارادہ رکھتا ہو تو چاہئے کہ بال اور جسم سے کسی چیز کو مس نہ کرے۔ اور ایک روایت میں ہے کہ فرمایا کہ بال نہ کترائے اور نہ ناخن اتروائے۔ اور ایک روایت میں ہے کہ جو شخص ذی الحجہ کا چاند دیکھ لے اور قربانی کا ارادہ ہو تو نہ بال منڈائے اور نہ ناخن ترشوائے۔ (مشکوٰۃ ص ١٢٧)
حدیث ٢:
عن ابن عباس رضي الله عنهما قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : ما من أيام العمل الصالح فيهن أحب إلى الله من هذه الأيام العشر , قالوا : يا رسول الله ولا الجهاد في سبيل الله ؟ قال : ولا الجهاد في سبيل الله إلا رجل خرج بنفسه وماله فلم يرجع من ذلك بشيء. [ رواه البخاري ]
سیدنا حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے فرمایا کہ رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کوئی دن ایسا نہیں ہے کہ نیک عمل اس میں ان ایام عشرہ سے اللہ تعالیٰ کے نزدیک زیادہ محبوب ہو۔ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جہاد فی سبیل اللہ بھی نہیں ؟ فرمایا : جہاد فی سبیل اللہ بھی نہیں ! مگر وہ مرد جو اپنی جان اور مال لے کر نکلا اور ان میں سے کسی چیز کے ساتھ واپس نہیں آیا (یعنی شہادت)۔ (مشکوٰۃ ص ١٢٨)
حدیث ٣:
عن ابي هريرة ان النبي (صلوات ربي وسلامه عليه) قال ما من ايام احب الى الله ان يتعبد له فيها من عشر ذي الحجة يعدل صيام كل يوم منها بصيام سنة وقيام لَيلَة فيھِن كقيام سنة
سیدنا حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ کوئی دن زیادہ محبوب نہیں اللہ تعالیٰ کی طرف کہ ان میں عبادت کی جائے ذی الحجہ کے ان دس دنوں سے۔ ان دنوں میں ایک دن کا روزہ سال کے روزوں کے برابر ہے اور اس کی ایک رات کا قیام سال کے قیام کے برابر ہے۔ (غنیۃ الطالبین ص ٤١٧ ، مشکوٰۃ ص ١٢٨ ، فضائل الایام والشہور صفحہ ٤٦٤ تا ٤٦٦)
جو شخص ان دس ایام کی عزت کرتا ہے اللہ تعالیٰ یہ دس چیزیں اس کو مرحمت فرماکر اس کی عزت افزائی کرتا ہے (١) عمر میں برکت (٢) مال میں افزونی (٣) اہل و عیال کی حفاظت (٤) گناہوں کا کفارہ (٥) نیکیوں میں اضافہ (٦) نزع میں آسانی (٧) ظلمت میں روشنی (٨) میزان میں سنگینی یعنی وزنی بنانا (٩) دوزخ کے طبقات سے نجات (١٠) جنت کے درجات پر عروج۔
جس نے اس عشرہ میں کسی مسکین کو کچھ خیرات دی اس نے گویا اپنے پیغمبروں علیہم السلام کی سنت پر صدقہ دیا۔ جس نے ان دنوں میں کسی کی عیادت کی اس نے اولیاء اللہ اور ابدال کی عیادت کی ، جو کسی کے جنازے کے ساتھ گیا اس نے گویا شہیدوں کے جنازے میں شرکت کی، جس نے کسی مومن کو اس عشرہ میں لباس پہنایا، اللہ تعالیٰ اس کو اپنی طرف سے خلعت پہنائے گا جو کسی یتیم پر مہربانی کرے گا ، اللہ تعالیٰ اس پر عرش کے نیچے مہربانی فرمائے گا، جو شخص کسی عالم کی مجلس میں اس عشرہ میں شریک ہوا وہ گویا انبیا اور مرسلین علیہم السلام کی مجلس میں شریک ہوا۔ (غنیہ الطالبین صفحہ ٤١٩)
ذوالحجہ کے پہلے نو دنوں کے روزے:
ذوالحجہ مبارک کے پہلے عشرہ کے پہلے نو دن روزہ رکھنا بڑا ثواب ہے ۔ ام المؤمنین سیدہ حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں:
أربع لم يكن يدعهن النبي صلى الله عليه وسلم : صيامَ عاشورا , والعَشـْرَ , والعَشـْرَ , وثلاثة ً أيام من كل شهر , والركعتين قبل الفجر
چار چیزوں کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نہیں چھوڑا کرتے تھے ۔ عاشورہ کا روزہ اور ذولحجہ کے دس دن یعنی پہلے نو دن کا روزہ اور ہر ماہ کے تین دن کا روزہ اور نماز فجر سے قبل دورکعتیں۔ ( مشکوٰۃ ص ١٨٠ ، فضائل الایام والشہور صفحہ ٤٦٦)
ماہِ ذی الحجہ کے نفل:
٭ حدیث شریف میں ہے کہ جو شخص اول رات ذوالحجہ میں چار رکعت نفل پڑھے کہ ہر کعت میں الحمد شریف کے بعد قُلْ ہُوَ اللّٰہُ اَحَدٌ پچیس مرتبہ پڑھے تو اللہ تعالیٰ اس کے لئے بیشمار ثواب لکھتا ہے۔ (فضائل الایام والشہور صفحہ ٤٨٧)
٭ حضور رحمۃ للعالمین شفیع المذنبین صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص دسویں ذی الحجہ تک ہر رات وتروں کے بعد دو رکعت نفل پڑھے کہ ہر رکعت میں الحمد شریف کے بعد سورہ کوثر اور سورہ اخلاص تین تین دفعہ پڑھے تو اس کو اللہ تعالیٰ مقام اعلیٰ علیین میں داخل فرمائے گا اور اس کے ہر بال کے بدلہ میں ہزار نیکیاں لکھے گا اور اس کو ہزار دینار صدقہ دینے کا ثواب ملے گا۔(فضائل الایام والشہور صفحہ ٤٨٧)
٭ اگر کوئی اس مہینہ کی کسی رات کی پچھلی تہائی رات میں چار رکعات نفل پڑھے جس کی ہر رکعت میں الحمد شریف کے بعد آیۃ الکرسی تین بار اور قُلْ ہُوَ اللّٰہُ اَحَدٌ تین بار اور قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ الْـفَلَـقِ اور قُلْ اَعُوْذُ بِرَ بِّ النَّاسِ ایک ایک مرتبہ پڑھے اور نماز سے فارغ ہونے کے بعد اپنے دونوں ہاتھ اٹھا کر یہ دعا پڑھے
سبحان ذي العزة والجبروت سبحان ذي القدرة والملكوت سبحان ذي الحي الذي لا يموت لا اله إلا الله يحي و يميت وهو حي لا يموت سبحان الله رب العباد والبلاد والحمد لله حمدا كثيرا طيبا مباركا فيه على كل حال والله اكبر كبيرا كبرياء ربنا وجلاله وقدرته بكل مكان
پھر جو چاہے مانگے تو اس کے لئے ایسا اجر ہے جیسے کسی نے بیت اللہ شریف کا حج کیا ہو ۔ اور حضور سراپا نور شافع یوم النشور صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہ اطہر کی زیارت کی ہوگی (غنیہ الطالبین صفحہ ٤١٧)
٭ سرکار صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو کوئی عرفہ کی رات یعنی نویں کی رات کو سو١٠٠ رکعات نفل ادا کرلے اور ہر رکعت میں الحمد شریف کے بعد ایک بار یا تین بارقُلْ ہُوَ اللّٰہُ اَحَدٌ پڑھے تو اللہ تعالیٰ اس کے تمام گناہوں کو بخش دے گا اور اس کے لئے جنت میں یا قوت کا سرخ مکان بنایا جائے گا۔
دوسری روایت میں ہے کہ عرفہ کی رات میں دو رکعات نفل پڑھے۔ پہلی رکعات میں الحمد شریف کے بعد ١٠٠ مرتبہ آیت الکرسی پڑھے اور دوسری رکعت میں الحمد شریف کے بعد قُلْ ہُوَ اللّٰہُ اَحَدٌ ١٠٠ مرتبہ پڑھے تو اللہ کریم قیامت کے دن اس نماز کی برکت سے اس کو بمعہ اس کے ستر٧٠ آدمی بخشے گا۔ (فضائل الایام والشہور صفحہ ٤٨٩)
٭ جو کوئی نحر کی رات یعنی دسویں ذوالحجہ کو جس کی صبح عید ہوتی ہے بارہ رکعات نفل پڑھے اور ہر رکعت میں الحمد شریف کے بعد قُلْ ہُوَ اللّٰہُ اَحَدٌ پندرہ دفعہ پڑھے تو اس نے ستر سال کی عبادت کا ثواب حاصل کیا اور تمام گناہوں سے پاک ہوگیا۔ اسی رات کی ایک نماز یہ بھی ہے کہ ہر رکعت میں الحمد شریف کے بعد ایک دفعہ قُلْ ہُوَ اللّٰہُ اَحَدٌ اور ایک دفعہ قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ الْـفَلَـقِ اورایک دفعہ قُلْ اَعُوْذُ بِرَ بِّ النَّاسِ پڑھے اور سلام کے بعد ستر٧٠ دفعہ سُبحَانَ اللّٰہِ اور ستر٧٠ دفعہ درود شریف پڑھے تو اس کے تمام گناہ بخشے جائیں گے۔ (فضائل الایام والشہور صفحہ ٤٨٩)
٭ دسویں تاریخ کو نماز قربانی کے بعد گھر آکر چار رکعات نفل جو مسلمان ادا کرے کہ پہلی رکعت میں الحمد شریف کے بعد سَبِّحِ اسْمَ رَبِّکَ الْاَعْلٰی ایک بار اور دوسری رکعت میں الحمد شریف کے بعد وَالشَّمْسِ ایک بار اور تیسری رکعت میں الحمد شریف کے بعد وَالَّیْلِ ایک بار پڑھے اور چوتھی رکعت میں الحمد شریف کے بعد وَالضُّحٰی ایک دفعہ پڑھے ۔ پس پایا اس نے ثواب آسمانی کتابوں کو پڑھنے کا ۔ (فضائل الایام والشہور صفحہ ٤٨٩)
٭ جو شخص قربانی کے بعد دو رکعت نفل پڑھے اور ہر رکعت میں الحمد شریف کے بعد وَالشَّمْسِ پانچ بار پڑھے تو وہ شخص حاجیوں کے ثواب میں شامل ہوا اور اس کی قربانی قبول ہوئی۔ (فضائل الایام والشہور صفحہ ٤٩٠)
٭ بارگاہِ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! اگر کوئی فقیر ہو اور قربانی کی طاقت نہ رکھتا ہو تو کیا کرے؟ حبیب خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ نمازِ عید کے بعد گھر میں دورکعات نفل پڑھے ۔ ہر رکعت میں الحمد شریف کے بعد سورئہ الکوثر تین مرتبہ پڑھے تو اللہ جل شانہ، اس کو اونٹ کی قربانی کا ثواب عطا فرمائے گا۔ (فضائل الایام والشہور صفحہ ٤٩٠ بحوالہ راحت القلوب)
ذی الحجہ کی اہم دعا
الحمد لله الذي في السمآء عرشه ، الحمد لله الذي في الارض قدرته ، الحمد لله الذي في القيامة هيبته ، الحمد لله الذي في القبر قضاؤه ، الحمد لله الذي في الجنة رحمته ، الحمد لله الذي في جهنم سلطانه ، الحمد لله الذي في البر والبحر برهانه ، و الحمد لله الذي في الهواء ريحه، و الحمد لله الذي لا مفر و لا ملجآ الآ اليه والحمد لله رب العلمين
ہر خوبی اللہ کے لیے ہے جس کا عرش آسمان میں ہے ، تعریف اللہ کے لیے ہے جس کی قدرت زمین پر ہے ، تعریف اللہ کے لیے ہے جس کی ہیبت قیامت میں ہے ، تعریف اللہ کے لیے ہے جس کا حکم قبروں پر ہے ، تعریف اللہ کے لیے ہے جس کی رحمت جنت میں ہے ، تعریف اللہ کے لیے ہے جس کی برہان خشکی اور سمندر میں ہے ، تعریف اللہ کے لیے ہے جس کی خوشبو ہوا میں ہے ، تعریف اللہ کے لیے ہے کہ سوائے اس کی ذات کے کوئی پناہ کی جگہ نہیں ہے تعریف اللہ کے لیے ہے جو رب العالمین ہے۔
ذو الحجہ شریف میں رونما ہونے والے اہم واقعات
٭ اعلان نبوت کے بارہویں سال اہل مدینہ کی جانب سے تیسری بیعت عقبہ جس میں ٢٩ مرد اور دو عورتیں مشرف بہ اسلام ہوئیں ، اہل مدینہ کے لیے بارہ نقیب مقرر۔۔۔۔۔۔١ھ ٭ حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ، کی ولادت بمقام ''قباء''۔۔۔۔۔۔١ھ ٭ غزوہ سویق۔۔۔۔۔۔٢ھ ٭ سیدتنا فاطمہ رضی اللہ عنہا بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شادی ۔۔۔۔۔۔٢ھ ٭ غزوہ بنی قریظہ۔۔۔۔۔۔٥ھ ٭ وفات حضرت سعد بن معاذ سید الاوس۔۔۔۔۔۔٥ھ ٭ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ امیر حج بنے۔۔۔۔۔۔٩ھ ٭ حجۃ الوداع (عرفات اور منیٰ میں عظیم خطبات کے ذریعہ منشور انسانیت کا اعلان) ۔۔۔۔۔۔١٠ ھ ٭ حجۃ الوداع سے واپسی پر خطبہ غدیر خم میں حضرت علی کو مولائے کائنات کا منصب اور اہلبیت کو قرآن کی عملی تفسیر اور ھادی قرار دیا۔۔۔۔۔۔١٠ھ ٭ وفات ابو العاص (دامادِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم)۔۔۔۔۔۔١٢ھ ٭ وفات یزید بن ابی سفیان۔۔۔۔۔۔١٨ھ ٭ وفات سعد جمحی۔۔۔۔۔۔٢٠ھ ٭ حضرت عمررضی اللہ تعالی عنہ پر قاتلانہ حملہ ۔۔۔۔۔۔٢٣ھ ٭ پہلی بحری جنگ (دور حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ)۔۔۔۔۔۔٢٧ھ ٭تعمیر نہر بصرہ۔۔۔۔۔۔٢٩ھ ٭شہادتِ حضرت عثمانِ غنی رضی اللہ تعالی عنہ وخلافت حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ ۔۔۔۔۔۔٣٥ھ ٭ وفات محمد بن ابی بکر رضی اللہ تعالی عنہ ۔۔۔۔۔۔٣٨ھ ٭ وفات عثمان جمحی رضی اللہ تعالی عنہ ۔۔۔۔۔۔٤٢ھ ٭ وفات حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالی عنہ ۔۔۔۔۔۔٤٤ھ ٭ وفات عاصم بن عدی رضی اللہ تعالی عنہ ۔۔۔۔۔۔٤٥ھ ٭وفات جریر بن عبداللہ البجلی ۔۔۔۔۔۔٥١ھ ٭ وفات عبداللہ بن انیس رضی اللہ تعالی عنہ ۔۔۔۔۔۔٥٤ھ ٭فتح سمرقند ۔۔۔۔۔۔٦٢ھ ٭ یزیدیوں کے ہاتھوں حرمین طیبین کی بے حرمتی (واقعہ حَرہ)۔۔۔۔۔۔٦٣ھ ٭ ترمیم کعبۃ اللہ شریف ۔۔۔۔۔۔٦٤ھ ٭ کوفہ پر بنو امیہ کا قبضہ ۔۔۔۔۔۔ ٧٢ھ ٭ تعمیر نو کعبۃ اللہ شریف۔۔۔۔۔۔٧٣ھ ٭ حجاج امیر کوفہ ہوا۔۔۔۔۔۔٧٥ھ ٭ وفات خالد الحکیم ۔۔۔۔۔۔٨٥ھ ٭ وفات مقدام بن معدی کرب۔۔۔۔۔۔٨٧ھ ٭ شہادت عظیم جرنیل قتیبہ بن مسلم۔۔۔۔۔۔٩٦ھ ٭ حاکم بنو امیہ سلیمان نے حج کیا۔۔۔۔۔۔٩٧ھ ٭ وفات عظیم جرنیل و فاتح موسیٰ بن نصیر۔۔۔۔۔۔٩٧ھ ٭ علوی، فاطمی اور عباسی خلافت کیلئے سازشیں۔۔۔۔۔۔١٠٠ھ ٭ وفات ابو بردہ بن ابی موسیٰ الاشعری۔۔۔۔۔۔١٠٤ھ ٭ وفات قاسم بن محمد بن ابی بکر رضی اللہ تعالی عنہ ۔۔۔۔۔۔١٠٧ھ ٭ وفات قاسم بن مخمیر۔۔۔۔۔۔١١١ھ ٭ شہادت الجراح الحکمی۔۔۔۔۔۔١١٢ھ ٭ شہادت امام محمد باقر رضی اللہ تعالی عنہ بن امام زین العابدین رضی اللہ تعالی عنہ۔۔۔۔۔۔١١٤ھ ٭یزید بن ہشام امیر حج بنا۔۔۔۔۔۔١٢٣ھ ٭وفاتِ یزید اور خلافتِ ناقص ابراہیم۔۔۔۔۔۔١٢٦ھ ٭ مروانِ ثانی کا قتل اور بنو امیہ کی امارت کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ اور بنو عباس کی امارت کے دور کا آغاز۔۔۔۔۔۔١٣٢ھ ٭وفات ابو العباس السفاح۔۔۔۔۔۔١٣٦ھ ٭ وفات خلیفہ منصور۔۔۔۔۔۔١٥٨ھ ٭ خلافت مہدی۔۔۔۔۔۔١٥٨ھ ٭ خلیفہ مہدی امیر حج۔۔۔۔۔۔١٦٠ھ ٭ وفات حماد بن دینار۔۔۔۔۔۔١٦٧ھ ٭ وفات الخیزران (والدہ ہارون رشید) ۔۔۔۔۔۔١٧٢ھ ٭ ہارون رشید کا حج ۔۔۔۔۔۔ ١٧٤ھ ٭ وفات حماد زید بن بصری ۔۔۔۔۔۔١٧٩ھ ٭ ہارون رشید کا حج۔۔۔۔۔۔١٨٦ھ ٭ ہارون رشید کا حج۔۔۔۔۔۔١٨٨ھ ٭ اعلان خلافت ابراہیم بن المبارک۔۔۔۔۔۔٢٠١ھ ٭ خراسان میں زلزلہ۔۔۔۔۔۔٢٠٣ھ ٭ وفات المنتصر و حکومت عبدالرحمن۔۔۔۔۔۔٢٠٦ھ ٭ وفات ابو عبیدہ معمرہ الغوی۔۔۔۔۔۔٢٠٩ھ ٭ وفات معلی الرازی ۔۔۔۔۔۔ ٢١١ھ ٭ وفات مفتی اندلس عیسیٰ الغافقی۔۔۔۔۔۔٢١٢ھ ٭ وفات الحافظ شریح الجوہری۔۔۔۔۔۔٢١٧ھ ٭ فتنہ شیعہ خرمیہ۔۔۔۔۔۔٢١٨ھ ٭ وفات ابو جعفر محمد الجواد۔۔۔۔۔۔٢٢٠ھ ٭ وفات الحافظ الحکم البہرانی۔۔۔۔۔۔٢٢٢ھ ٭ وفات ابو الجماہیر الکفرسوسی۔۔۔۔۔۔٢٢٤ھ ٭ محمد بن سلام البیکندی ۔۔۔۔۔۔ ٢٢٥ھ ٭ وفات الواثق باللہ و خلافت المتوکل۔۔۔۔۔۔٢٣٢ھ ٭ وفات عبدالقواریری ۔۔۔۔۔۔٢٣٥ھ ٭ وفات محمد بن کرام بانی کرامیہ۔۔۔۔۔۔٢٥٥ھ ٭ وفات حافظ ابو زرعہ محدث۔۔۔۔۔۔٢٦٤ھ ٭ وفات قاضی صا لح بن امام احمد بن حنبل۔۔۔۔۔۔٢٦٥ھ ٭ وفات ابوبکر ابن حازم۔۔۔۔۔۔٢٧٦ھ ٭ وفات ابو عمر الراقی ۔۔۔۔۔۔٢٨٠ھ ٭ وفات ابو عمرو بن خرذ اد الانطاکی۔۔۔۔۔۔٢٨١ھ ٭ وفات ابو العباس المبرد النحوی۔۔۔۔۔۔٢٨٥ھ ٭ وفات محمد بن وضاح محدث اندلسی۔۔۔۔۔۔٢٨٦ھ ٭ وفات عبدان الجوالیقی۔۔۔۔۔۔٣٠٦ھ ٭ وفات حافظ الدولابی۔۔۔۔۔۔٣١٠ھ ٭ قرامط نے حاجیوں کا قتل عام کیا۔۔۔۔۔۔٣١١ھ ٭ وفات ابو بکر بن الباغنوی۔۔۔۔۔۔٣١٢ھ ٭ عراقی حاجی مکہ نہ جاسکے۔۔۔۔۔۔٣١٤ھ ٭ وفات ابو بکر بن بہلول الانباری۔۔۔۔۔۔٣٢٩ھ ٭ وفات ابو بکر الاخشید و ابو بکر شبلی (شیخ طریقت سلسلہ عالیہ قادریہ خلیفہ حضرت جنید بغدادی علیہ الرحمہ)۔۔۔۔۔۔٣٣٤ھ ٭٭ وفات ابو عبداللہ الاخرم۔۔۔۔۔۔٣٤٤ھ ٭عراق میں شدید ژالہ باری۔۔۔۔۔۔٣٥١ھ ٭ عید غدیر کی ابتداء ۔۔۔۔۔۔٣٥٢ھ ٭ وفات ابو بکر البزاز صاحب الغیلانیات۔۔۔۔۔۔٣٥٤ھ ٭ وفات ابو الفرج الاصفہانی صاحب الاغانی۔۔۔۔۔۔٣٥٦ھ ٭ بدامنی کی وجہ سے عراق و شام سے حاجی نہ جا سکے ۔۔۔۔۔۔٣٥٧ھ ٭ عید غدیر جبراً عوام پر مسلط کی گئی۔۔۔۔۔۔٣٥٩ھ ٭ بنیاد جامع الازہر۔۔۔۔۔۔٣٦١ھ ٭ وفات ابن البقیۃ الوزیر۔۔۔۔۔۔٣٦٧ھ ٭ وفات ابو زکریا المزکی۔۔۔۔۔۔٣٩٤ھ ٭ خلافت ہشام (دوبارہ)٤٠٠ھ ٭ وفات ابو بکر ابن الباقلانی۔۔۔۔۔۔٤٠٣ھ ٭ وفات امام الحاکم صاحب المستدرک (محدث علیہ الرحمہ)۔۔۔۔۔۔٤٠٥ھ ٭ وفات ابو الفضل الخزاعی صاحب کتاب الواضح۔۔۔۔۔۔٤٠٨ھ ٭ حکومت الظاہر الفاطمی۔۔۔۔۔۔٤١١ھ ٭ وفات فقیہ الشعیہ الشیخ المفید ۔۔۔۔۔۔ ٤١٣ ھ ٭ وفات ابو بکر المتقی۔۔۔۔۔۔٤٢٠ھ ٭ وفات القادر باللہ العباسی و خلافت القایم بامراللہ العباسی۔۔۔۔۔۔٤٢٢ھ ٭ وفات عبدالملک ابو منصور الثعالبی (مفسر قرآن) ۔۔۔۔۔۔٤٣٠ھ ٭ وفات ابو علی الاہوازی۔۔۔۔۔۔٤٤٦ھ ٭ قتل امیر البساسیری۔۔۔۔۔۔٤٥١ھ ٭ وفات القاضی ابو عبداللہ القضاعی۔۔۔۔۔۔٤٥٤ھ ٭ وفات الوزیر ابو نصر الکندی۔۔۔۔۔۔٤٥٦ھ ٭ وفات ابو القاسم المہروانی۔۔۔۔۔۔٤٦٨ھ ٭ وفات ابو بکر ابن حمدویہ۔۔۔۔۔۔٤٧٠ھ ٭ وفات ابو بکر الخراز۔۔۔۔۔۔٤٨٠ھ ٭ وفات شیخ ابو اسماعیل الانصاری ۔۔۔۔۔۔٤٨١ھ ٭ وفات ابو الفرج الشیرازی۔۔۔۔۔۔٤٨٦ھ ٭ وفات عبدالملک بن سراج اللغوی۔۔۔۔۔۔٤٨٩ھ ٭ وفات الفقیہ عبدالوہاب الفاسی۔۔۔۔۔۔٥٠٠ھ ٭ وفات ابو بکر احمد الزاہد حنبلی۔۔۔۔۔۔٥٠٣ھ ٭ بغداد میں زلزلہ۔۔۔۔۔۔٥١١ھ ٭ وفات ابو بکر بن بلتگین النحوی۔۔۔۔۔۔٥١٣ھ ٭ وفات ابو علی الحسن الحداد۔۔۔۔۔۔٥١٥ھ ٭ وفات ابو طالب الیوسفی۔۔۔۔۔۔٥١٦ھ ٭ وفات ابن عبدون اللغوی التیونسی۔۔۔۔۔۔٥١٩ھ ٭ وفات ابو الحجاج المنورقی۔۔۔۔۔۔٥٢٣ھ ٭ وفات محمد بن الحسین المزرنی۔۔۔۔۔۔٥٢٧ھ ٭ وفات ابو القاسم الثروطی۔۔۔۔۔۔٥٢٨ھ ٭ وفات ہبۃ اللہ البدیع الاسطرابی۔۔۔۔۔۔٥٣٣ھ ٭ وفات قوام الستہ الحافظ اسمٰعیل الاصبہانی۔۔۔۔۔۔٥٣٥ھ ٭ وفات زمخشری صاحب الکشاف۔۔۔۔۔۔٥٣٨ھ ٭ وفات اُمیہ بن ابی الصلت٥٤ھ ٭ وفات ابو علی البسطامی۔۔۔۔۔۔٥٤٨ھ ٭ وفات القاضی ابن راشد۔۔۔۔۔۔٥٥١ھ ٭وفات قطب المشائخ عدی الہکاری۔۔۔۔۔۔٥٥٧ھ ٭ وفات علی بن عبدوس الفقیہ۔۔۔۔۔۔٥٥٨ھ ٭ وفات نجم الدین (والد گرامی صلاح الدین ایوبی)۔۔۔۔۔۔٥٦٨ھ ٭ وفات ابو محمد بن المامون الادیب۔۔۔۔۔۔٥٧٣ھ ٭ وفات ابو الحسن بن بکروس۔۔۔۔۔۔٥٧٦ھ ٭ وفات ابن غریۃ الوارق۔۔۔۔۔۔٥٧٨ھ ٭وفات محمد بن شیر کوہ (مشہور سپہ سالار)۔۔۔۔۔۔٥٨١ھ ٭ وفات ابن جمیر الاندلسی۔۔۔۔۔۔ ٥٨٨ ھ ٭ وفات ابو الحسن الفاخرانی۔۔۔۔۔۔٥٩١ھ ٭مکہ مکرمہ میں زبردست طوفانِ باد۔۔۔۔۔۔٥٩٢ھ ٭وفات نقی الدین الثعلی۔۔۔۔۔۔٥٩٣ھ ٭ وفات امام الخشوعی مسند الشام۔۔۔۔۔۔٥٩٨ھ ٭ وفات امام ابن الاثیر الجزری۔۔۔۔۔۔٦٠٣ھ ٭شہادت حضرتشمس تبریزی۔۔۔۔۔۔٦٤٢ھ ٭وفات خواجہ نصیر الدین طوسی۔۔۔۔۔۔٦٧٢ھ ٭حکومت علاؤالدین خلجی۔۔۔۔۔۔٦٩٥ھ ٭وفات یاقوت مستعصمی کاتب۔۔۔۔۔۔٦٩٧ھ ٭وفات احمد بن اسحق الابرقوہی۔۔۔۔۔۔٧٠١ھ ٭حکومت شہاب الدین عمر خلجی۔۔۔۔۔۔٧١٥ھ ٭خلافت الحاکم الثانی۔۔۔۔۔۔٧٣٩ھ ٭وفات شہاب الدین العمری ۔۔۔۔۔۔ ٧٤٩ ھ ٭وفات بہاؤ الدین عمر الہندی۔۔۔۔۔۔٧٥٨ھ ٭وفات شیخ سراج الدین جنیدی۔۔۔۔۔۔٧٨١ھ ٭ وفات مخدوم السادات جہانیاں جہاں گشت رحمۃ اللہ علیہ (اُچ شریف )۔۔۔۔۔۔٧٨٥ھ ٭ وفات جمال الدین بن عبدالحق الحنفی۔۔۔۔۔۔٨٠٢ھ ٭ وفات تقی الدین الحرانی۔۔۔۔۔۔٨٠٤ھ ٭ وفات سراج الدین بن الکویک۔۔۔۔۔۔٨٠٧ھ ٭وفات شیخ زادہ الحنفی (مفسر، فقیہ، حاشیہ نگار)۔۔۔۔۔۔٨٠٨ھ ٭ وفات ابراہیم بن دقماق الحنفی ۔۔۔۔۔۔٨٠٩ھ ٭ وفات موفق الدین الخزر جی مؤرخ۔۔۔۔۔۔٨١٢ھ ٭وفات شمس الدین الزرکشی۔۔۔۔۔۔٨١٣ھ ٭وفات علی بن سند الادیب۔۔۔۔۔۔٨١٤ھ ٭ وفات سراج الدین عمر الفافا الہندی۔۔۔۔۔۔٨١٥ھ ٭ امارت داؤد المعتضدالثانی۔۔۔۔۔۔٨١٦ھ ٭وفات شمس الدین ابن البیطار۔۔۔۔۔۔٨٢٥ھ ٭وفات حافظ علاؤالدین دمشقی۔۔۔۔۔۔٨٢٩ھ ٭وفات عز الدین ابن انصرات۔۔۔۔۔۔٨٥١ھ ٭وفات امام ابن حجر العسقلانی شافعی (شارح بخاری)۔۔۔۔۔۔٨٥٢ھ ٭حکومت اول لودھی شاہ بہلول ۔۔۔۔۔۔٨٥٥ھ ٭وفات امام بدرالدین العینی حنفی (شارح بخاری)۔۔۔۔۔۔٨٥٥ھ ٭وفات شمس الدین النواجی الادیب۔۔۔۔۔۔٨٥٩ھ ٭ وفات منصور الکازرونی۔۔۔۔۔۔٨٦٠ھ ٭ وفات تقی الدین الشمشی۔۔۔۔۔۔٨٧٢ھ ٭ وفات ابو المحاسن تغری بردی الحنفی ۔۔۔۔۔۔٨٧٤ھ٭ وفات زین الدین بن الغضیف۔۔۔۔۔۔٨٧٨ھ ٭ وفات ریاضی سمرقندی ۔۔۔۔۔۔٨٨٤ھ ٭ دولت شاہ سمرقندی نے تذکرہئ شعراء لکھا۔۔۔۔۔۔٩٠٤ھ ٭ وفات حسین واعظ کاشفی (معروف حنفی مفسر اور سیرت نگار)۔۔۔۔۔۔٩١٠ھ ٭ وفات حمزۃ الناشری۔۔۔۔۔۔٩٢٦ھ ٭ بہمنی حکومت ٹوٹ کر چار حکومتیں بن گئیں۔۔۔۔۔۔٩٣٧ھ ٭ وفات اسمٰعیل انصقیہ الحنفی۔۔۔۔۔۔٩٤٢ھ ٭ وفات قاسم بن خلیفہ حلبی۔۔۔۔۔۔٩٤٨ھ ٭ حکومت محمد عادل شاہ سوری۔۔۔۔۔۔٩٦٠ھ ٭ وفات عبدالعزیز المکناسی۔۔۔۔۔۔٩٦٤ھ ٭ وفات عبدالمعطی الحضرمی (احمد آباد)٩٨٩ھ ٭ وفات نور الدین ظہوری۔۔۔۔۔۔١٠١٦ھ ٭ وفات کلیم ہمدانی۔۔۔۔۔۔١٠٦١ھ ٭ قتل دارِ شکوہ۔۔۔۔۔۔١٠٦٩ھ ٭ مولائی اسمٰعیل مراکش کا سلطان بنا۔۔۔۔۔۔١٥ ذوالحجہ، ١٠٧٩ھ ٭ حکومت قطب الدین بہادر شاہ اول۔۔۔۔۔۔١١١٨ھ ٭ حکومت فرخ سیر (دہلی)۔۔۔۔۔۔١١٢٤ھ ٭ وفات عبداللہ قطب الملک۔۔۔۔۔۔١١٣٥ھ ٭ وفات علامہ حکیم محمد حسین شہرت۔۔۔۔۔۔١١٤٩ھ ٭ قتل قائم خان(فرخ آباد) ۔۔۔۔۔۔١١٦١ھ ٭ مسعود بن عبدالعزیز نے کربلا پر حملہ کیا۔۔۔۔۔۔١٢ پریل/١٨ذی الحجہ، ١٢١٦ھ ٭ وفات مولوی محمد باقر آگاہ۔۔۔۔۔۔١٢٢٠ھ ٭ حاکم یاغستان یار محمد خان نے بالاکوٹ کے مقام پر بدعقیدگی اور توہین رسالت کا ارتکاب کرنے پر احمد رائے بریلوی اور مولوی اسماعیل دہلوی کو قتل کیا۔۔۔۔۔۔١٢٤٦ھ ٭ خلافت عبدالعزیز عثمانی ۔۔۔۔۔۔ ١٢٧٧ھ ٭ وفات مولوی چراغ علی۔۔۔۔۔۔١٣١٢ھ ٭ وفات داغ دہلوی (مشہور شاعر) ۔۔۔۔۔۔١٣٢٢ھ ٭ وفات شبلی نعمانی۔۔۔۔۔۔١٣٣٢ھ ٭ وفات حفیظ اللہ بندوی۔۔۔۔۔۔١٣٦٢ھ ٭ وفات آغا خان (سوم) ١٣٧٦ھ ٭ آزادی کویت۔۔۔۔۔۔١٣٨٠ھ ٭ وفات یوسف کاندھلوی وہابی۔۔۔۔۔۔١٣٨٤ھ ٭ میدان منیٰ میں ایرانی ، عراقی و شامی شیعہ حاجیوں کا احتجاج ، سعودی حکومت نے گن شپ ہیلی کاپٹر سے فائرنگ کی ہزاروں مارے گئے جبکہ زخمیوں کو برقی بھٹی میں جھونک دیا ۔۔۔۔۔۔١٤٠٧ھ/١٩٨٧ء ٭ مکۃ المکرمہ پر یمنیوں کا قبضہ، توپ کے گولوں سے کعبۃ اللہ شریف کو نقصان پہنچا اور مسجد حرام کے مینار شہید ہوگئے ۔۔۔۔۔۔١٤٠٧/١٩٨٧ء٭ تین سال متواتر منیٰ میں آتشزدگی کے واقعات ۔۔۔۔۔۔١٤١٥ ھ/مئی ١٩٩٥ء، دوسری ١٤١٦ ھ/اپریل ١٩٩٦ء، تیسری سے بڑی اور خطرناک آتشزدگی ہزاروں حاجی جھلس کر شہید ہوگئے ۔۔۔۔۔۔١٤١٧ ھ /اپریل ١٩٩٧ء مدینۃ المنورہ میں ایک مکان سے حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ (والد ماجد حضور علیہ الصلوٰہ والسلام) حضرت عکاشہ اور پانچ دیگر اصحاب رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کی قبور مبارکہ سے ان کے مبارک جسموں (جو صحیح حالت میں تھے) کو جنۃ البقیع میں منتقل کیا گیا۔۔۔۔۔۔٨ ذی الحجہ ١٣٩٨ھ/١٠ نومبر ١٩٧٨ءذی الحجہ میں وفات پانے والے بزرگان دین رضوان اللہ علیہم اجمعین
یکم ذی الحجہ
٭ حضرت سید عبدالاول سمر قندی ٩٠٥ھ ٭ حضرت خواجہ طاہر رفیق کشمیری ١٠٠١ھ ٭ خواجہ عبدالرحمان چھوہروی ١٣٤٢ھ ٭ حضرت بابا یوسف شاہ تاجی (تلمیذ اعلیٰ حضرت) ١٣٦٦ھ
٢ ذی الحجہ
٭ حضرت سیدنا ذکریا علیہ السلام ٭ حضرت بُشر قریشی ٢١٨ھ ٭ حضرت ابو الحسن بخار ٤٨١ھ ٭ حضرت سید محمد فاضل متوکل ١١١٢ھ ٭ حضرت خواجہ نور محمد عرف شاہ بھیل موہاروی ١٢٠٥ھ ٭ حضرت مرزا حیات بیگ کشمیری ١١٢٠ھ ٭ حضرت شاہ غلام رسول رسول نمارائے بریلوی ١٢٨٩ھ ۔ ٭ حضرت سید محمد میاں جیلانی نو ساروی
٣ ذی الحجہ
٭ حضرت ایوب علیہ السلام ٭ حضرت سلیمان علیہ السلام ٭ حضرت ابو سعید احمد بروعے ٣١٧ھ ٭ حضرت شیخ محمد سلیم صابری ١٠٣٠ھ ٭ حضرت خواجہ حافظ احمد یسوی ١١١٦ھ ٭ حضرت شیخ محمد سلیم چشتی ١١٥١ھ ٭ حضرت حافظ عبدالواحد خالصپوری ١٣٠٤ھ ٭ حضرت قطبِ مدینہ مولانا ضیاء الدین مدنی علیہ الرحمہ ٭ شیخ عبد القادر حیدرآبادی ١٣٢٩ھ ٭ حضرت پیر محمد اسحق جان سرہندی (ممبر ورکنگ کمیٹی صوبائی مسلم لیگ سندھ ١٩٤٠ئ) ١٣٩٥ھ ٭ حضرت مولانا ذاکر جھنگوی (رہنما جمعیت علماء پاکستان و رہنما تحریک پاکستان)
٤ ذی الحجہ
٭ حضرت خواجہ ابو الحسن فضیل ٭ حضرت سخی سرور سلطان وزیر آبادی
٥ ذی الحجہ
٭ حضرت شیخ قیام الدین ٩٠٣ھ ٭ حضرت حاجی شاہ محمد بشیر میاں صاحب (پیلی بھیت )
٦ ذی الحجہ
٭ حضرت امام المسلمین سیدنا محمد تقی رضی اللہ عنہ ٢٢٠ھ ٭ حضرت امیر کبیر سید علی ہمدانی ٧٧٠ھ ٭ حضرت خواجہ قاسم سمر قندی ٨٩١ھ ٭ حضرت زندہ شاہ (١٣٦٢ ھ میں مزار ظاہر ہواجب حضرت نے کسی کو خواب میں بشارت دی) ٭ حضرت مولانا عبد الغفور صاحب (نصیر آباد بلوچستان)
٧ ذی الحجہ
٭ حضرت امام المسلمین سیدنا محمد باقر رضی اللہ عنہ،١١٧ھ ٭ حضرت ابو بکر احمد خطیب بغدادی٤٦٢ھ ٭ حضرت شیخ محمد عارف صابری چشتی١٠٧١ھ ٭ حضرت عبدالخالق گجرای ١٠٧٨ھ ٭ حضرت کمال الدین عرف سید شاہ کلیم پوری ١٢٦٦ھ ٭ مولانا حبیب الرحمان شیروانی ١٣٧٠ھ ٭ میاں محمد بخش ابدال
٨ ذی الحجہ
٭ حضرت شاہ احمد علی قادری ٭ حضرت قطب الدین قطب عالم اوچی ٨٥٦ھ ٭ حضرت سید برہان الدین قطب عالم ٥٨٦ھ ٭ حضرت سخی سلطان منگھوپیر ٭ حضرت محمد صدیق چشتی صابری لاہوری ١٠٨٤ھ
٩ ذی الحجہ
٭ حضرت سیدنا امام مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہ، ٭ حضرت سیدی عبداللہ (صاحب مسند داری) سمر قندی ٢٥٥ھ ٭ حضرت حارث بن اُسامہ (صاحب مسند)٢٨٢ھ ٭ حضرت ابو بکر عبداللہ بن باہر دینوی ٣٣٠ھ ٭ حضرت ابو الحسن بن عالم بصری ٣٦٠ھ ٭ حضرت سید زین الدین ٨١٣ھ ٭ حضرت خواجہ ابو المساکین شیخ محمد ٹھٹھوی ٭ شیخ محمد فاضل سعدی گجراگی سورتی ١٣٠٢ھ ٭ حضرت علامہ محمد عادل حنفی الہ آبادی ثم کانپوری ١٣٢٥ھ ٭ محمد ابراہیم جیلانی المعروف سید سخی وجڑی والا (حیدرآباد) ٭ حضرت سید قطب شاہ عرف ظہور شاہ (بھیم پورہ نشتر روڈ، کراچی) ٭ حضرت علامہ ولایت حسین بن خیرات حسین حنفی (وصال بر موقع وقوف عرفات)١٣٤٠ھ
١٠ ذی الحجہ
٭ حضرت فتح موصلی ٢٢٠ھ ٭ حضرت شیخ محمد سعد عرف سعد الدین جموی ٦٥٠ھ ٭ حضرت سید جلال الدین مخدوم جہانیاں جہاں گشت ٧٥٠ھ ٭ حضرت خواجہ حسن عطار ٨٢٦ھ ٭ حضرت قاضی القضا شمس الدین محمد جزری (مصنف حصن حصین) ٨٣٣ھ ۔ ٭ حضرت سرکار پٹنہ ٭ بابا بھولے شاہ فیروز پوری ٭ حضرت علامہ وکیل احمد سکندر پوری حنفی (پچاس کتب کے مصنف خصوصاً " الکلام المقبول فی اثبات اسلام آباء الرسول ا" )١٣٢٢ھ ٭ حضرت مفتی لطف اللہ علی گڑھی ١٣٣٤ھ ٭ پیر طریقت صاحبزادہ ظہور الحق گورداسپوری ١٤٠٤ ھ
١١ ذی الحجہ
٭ حضرت عبدالعزیزی تمیمی ٣٣٢ھ ٭ حضرت ابو الحسن فتح بن شمعون ٤٥٢ھ ٭ حضرت شیخ بہاؤلدین شطاری دولت آبادی ٩٢١ھ ٭ سید شہاب الدین سہروردی بن میراں موج دریا بخاری ١٠٤١ھ ٭ حضرت ابو طاہر محمد دہلوی ١١٥٩ھ ٭ حضرت شاہ محمد طاہر فاخر الہ آبادی ١١٦٤ھ ٭ حضرت سید امین الدین عرف ارحام الدین ٭ حضرت شاہ مقیم حجرہ شریف ٭ حضرت حاکم علی نقشبندی کوٹلی ١٢٥٨ھ ٭ حضرت سید سید محمود آغا نقشبندی ١٢٩١ھ ٭ حضرت پیر امیر شاہ قادری (مظفر آباد) ٭ حضرت پیر فضل حق گل آبا کوہاٹی نقشبندی قادری ١٣٧١ھ/٢ ستمبر ١٩٥٢ء (رہنما تحریک پاکستان)
١٢ ذی الحجہ
٭ حضرت ابو حمزہ محمد بن ابراہیم بغدادی ٢٦٧ھ ٭ حضرت شیخ اختیار الدین ٨٣٨ھ ٭ حضرت سید شفیق مرغول ابدال ٨٩٧ھ ٭ حضرت مخدوم جہانیاں جہان گشت جلال بخاری دوران فلک ٩٠٣ھ ٭ حضرت مفتی ابو الصفا دمشقی ١١٢٠ھ ٭ حضرت پیر شاہ سرہندی ١١٤٥ھ ٭ حضرت شاہ خدا بخش ١٢٦٩ھ ۔
١٣ ذی الحجہ
٭ حضرت ابو اسحق ابراہیم کرمان شاہی ٣٣٧ھ ٭ حضرت سید عبدالقادر انییاد ٧٢٥ھ ٭ حضرت سائیں محمد عبد اللہ ساقی سرمست قلندر (مستجاب الدعوات)١٣٧٦ھ
١٤ ذی الحجہ
٭ حضرت ابو عمر محمد بن احمد نجند نیشاپوری ٣٦٦ھ ٭ حضرت شاہ عبدالغفار ٣٩٧ھ ٭ حضرت ابو سعید قیلوی ٥٥٧ھ ٭ حضرت شیخ عبدالرؤف ٧٠٠ھ ٭ حضرت شاہ سوندھا حق نما ٧٩٢ھ ٭ حضرت شیخ بایزید بغدادی ٧٩٧ھ ٭ حضرت سید محمد طفیل اتردلوی ١١٥١ھ ٭ حضرت شیخ محمد فاضل مجددی ١١٥١ھ ٭ حضرت شاہ حسین گجراتی ١١٨٣ھ ٭ حضرت اخون شاہ سُدَنی ١١٩١ھ ٭ حضرت حافظ ہدایت اللہ رامپوری ١٢٥٩ھ ٭ حضرت شاہ ابو الفضل ظہیر الدین محمد پناہ عطا عرف میاں جی ١٢٧٥ھ ۔
١٥ ذی الحجہ
٭ حضرت سیدنا یقوب علیہ السلام ٭ حضرت خواجہ اسحق بہاولپوری ٨٨٨ھ ٭ حضرت مولانا محمد افضل الہ آبادی ١١٢٤ھ ٭ حضرت مولانا رفیع الدین مراد آبادی ١٢١٨ھ ٭ حضرت خواجہ عبد الصمد خان المعروف حضور جی ١٣٦٩ھ/٢٧ ستمبر ١٩٥٠ء (رہنما تحریک پاکستان)
١٦ ذی الحجہ
٭ حضرت سید محمد حسن نوری بخاری ١٣٣ھ ٭ حضرت شیخ احمد نوریزی٢٤٤ھ ٭ حضرت ابو عبداللہ مغربی ٣٦٧ھ ٭ حضرت ابو المنصور اصفہانی ٤١٨ھ ٭ حضرت ابو الفرح فراغی ٤٩٧ھ ٭ حضرت مسعود شوغی دغ ابدال ٦١٣ھ ٭ حضرت سید علی بن احمد ٧٠٠ھ ٭ حضرت مولوی محمد امین بدایونی ١٢٥٥ھ ۔
١٧ ذی الحجہ
٭ حضرت ابو الحسن علی بصری ٣٧١ھ ٭ حضرت ابو محمد بصری ٣٨٥ھ ٭ حضرت ابو بکر محمد بن ابراہیم سوسی ٣٨٦ھ ٭ حضرت شیخ عثمان بن عمرو باقلانی ٤٠٢ھ ٭ حضرت سیدی ابو عبداللہ محمد حمیدی اندلسی ٤٨٨ھ ٭ حضرت شاہ خدا قلی ٥٢١ھ ٭ حضرت خواجہ فخرالدین زاہد ٧٠٤ھ ٭ حضرت خواجہ خورد محمد بن حضرت عزیزان علی رامتینی خوارزمی ٧١٥ھ ٭ حضرت شیخ فضل اللہ الہٰ آبادی ١١٦٧ھ ٭ حضرت شاہ باسط علی قلندر ١١٩٦ھ ٭ حافظ محمد امین چشتی لاہوری ١٣٦٣ھ ٭ پیر سید سچل شاہ جیلانی (خیرپورسندھ)
١٨ ذی الحجہ
٭ حضرت امیر المؤمنین سیدنا عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ ٣٥ھ ٭ حضرت شیخ محی الدین عاصم ٧٦٥ھ ٭ حضرت محب اللہ شامی ١١٠٣ھ ٭ شاہ آل رسول مارہروی ١٢٩٦ھ ٭ صدر الافاضل حضرت مولانا نعیم الدین مرادآبادی ٭ حضرت شیخ احمد بن صبغت اللہ شافعی مدراسی محدث (مصنف فتاوی صبغیہ) ١٣٠٧ھ ٭ حضرت سیف الدین چشتی (شجاع آباد)
١٩ ذی الحجہ
٭ حضرت ابوالحسن احمد نوری ٢٩٤ھ ٭ حضرت عبدالستار کاشغری ٦٨٧ھ ٭ حضرت شاہ ابو المکارم فاضل ٨٣٩ھ ٭ حضرت شیخ سعدی وزیر آبادی ١١٠٢ھ ٭ حضرت سید نور محمد گیلانی ١١٢٦ھ ٭ حضرت شیخ خیر الدین خیر شاہ چشتی ١٢٢٨ھ ٭ حضرت شیخ محمد سعید چشتی ١٢٣٠ھ ۔
٢٠ ذی الحجہ
٭ حضرت عبداللہ شاہ غازی (بن سید محمد نفس ذکیہ بن سید عبد اللہ المحض شہید ) ١٥١ھ ٭ حضرت شیخ جمال الدین جمن ٩٠٤ھ ٭ حضرت سید جلال الدین حمید ١١١٤ھ
٢١ ذی الحجہ
٭ حضرت محمد جام طوسی ٣٣٧ھ ٭ حضرت شیخ برہان الدین ابو محمد حسین ہمدانی ٥٨٩ھ ٭ حضرت سید اسمٰعیل اکبری ٥٩٨ھ ٭ حضرت شیخ عبدالحمید غوری ٤٣٧ھ ٭ حضرت سید عبدالاول سنبری ٥٥٣ھ ٭ حضرت شاہ صدر الدین قسیم العباد ٨٠٩ھ ٭ حضرت شیخ نظام ارنولی چشتی ٩٩٧ھ ٭ حضرت حاجی رفیع الدین ١٢٥٩ھ ٭ حضرت سید علی مردان شاہ جیلانی قادری (نورائی شریف)١٣٦٩ھ
٢٢ ذی الحجہ
٭ حضرت شیخ ابو العباس ٢٠١ھ ٭ حضرت شیخ ماد ہو قادری لاہوری ١٠٥٦ھ ٭ حضرت شاہ الہدیہ قلندر ١١٤٧ھ ۔ ٭ حضرت مولانا شاہ عبدالعلیم میرٹھی
٢٣ ذی الحجہ
٭ حضرت ام المؤمنین صفیہ رضی اللہ عنہا ٢٥ھ ٭ حضرت ابو الحسن علی بن ادریس یعقوبی٦٢١ھ ٭ حضرت شیخ صدر الدین عارف سہروردی ٦٨٤ھ ٭ خواجہ محمد حامد تونسوی ٭ حضرت محمد خدایار چشتی ٭ حضرت سید ابو محمد امام شاہ (لودھراں) ٭ حضرت بابا سید حیدر علی شاہ ٭ حضرت سید قاسم علی گیلانی (مکھر شریف اٹک)
٢٤ ذی الحجہ
٭ حضرت ابو القاسم عبدالصمد واعظ دینوری ٣٩٧ھ ٭ حضرت سید جلال عبدالقادر عرب سید احمد ٦٩٩ھ ٭ حضرت سید محمد محی الدین جوز البطعی ٧٤٥ھ ٭ حضرت خواجہ محمد عرف عمر پارسا نقشبندی(خلیفہ حضرت خواجہ بہاؤ الدین نقشبند) ٨٢٢ھ ٭ حضرت شاہ نعمت اللہ ولی ٨٣٤ھ ٭ حضرت نجم الدین غوث الدہر ٨٣٧ھ ٭ حضرت شیخ جلال الدین صابری کریم الطرفین ٩٨٩ھ ٭ حضرت مولوی مفتی غلام سرور لاہوری ١٣٠٧ھ ۔
٢٥ ذی الحجہ
٭ حضرت ابو المغیت حسین بن منصور حلاج ٣٠٩ھ ٭ آغا سید رہبر حسین شاہ مظہر گیلانی (مترجم قصیدئہ غوثیہ بر زبان سندھی و راہنما تحریک پاکستان) ١٣٩٢ھ
٢٦ ذی الحجہ
٭ حضرت ابو عمر عبدالملک گازرونی ٣٥٨ھ ٭ حضرت جمال شاہ قادری چشتی (مچھی میانی ، کھارادر، کراچی) ٭ خواجہ عبد الخالق اویسی (چشتیاں) ٭ حضرت مولانا حکیم گل محمد قریشی (ملتان) ٭ حضرت خواجہ در محمد غریب نواز (رحیم یار خان)
٢٧ ذی الحجہ
٭ حضرت شیخ اسعد ٢٤٩ھ ٭ حضرت ابو بکر جعفر المقلب پشبلی جنان الفردوس ٣٣٤ھ ٭ حضرت مولانا بہاؤالدین یمنی ٦٢٨ھ ٭ حضرت عبدالغفار صدیقی٧٢٧ ٭ حضرت صدر الدین انقلاب نفس ٨٦٣ھ ٭ حضرت شاہ فیض اللہ روح العالمین ٨٩٩ھ ٭ حضرت خواجہ بہاؤ الحق خاصہئ خدا ٩٢٢ھ ٭ حضرت شاہ قاسم سلیمانی ٩٧٥ھ ٭ حضرت سید عبدالصمد خدا نما ٩٩٩ھ ٭ حضرت حاجی محمد عبداللہ بغدادی ١٢٠١ھ ٭ حضرت شاہ داؤد مصری ١٢١١ھ ٭ حضرت شاہ کریم بخش ١٢٧٩ھ ٭ استاذ العلماء مولانا وجیہ الدین مدراسی ١٣١٠ھ
٢٨ ذی الحجہ
٭ حضرت امیر المؤمنین عمرفاروق رضی اللہ تعالی عنہ ٢٣ھ ٭ حضرت قاضی القضاہ شہاب الدین احمد حجر عسقلانی ٨٥٢ھ ٭ حضرت سید حسام الدین ٩٨٢ھ ٭ حضرت شیخ عبدالواحد صفاتی فنا ١٠٠٧ھ ٭ حضرت شیخ محمد صدیق صابری ١٠٨٤ھ ٭ حضرت شیخ عبدالاحد سرہندی ١١٤٢ھ ٭ حضرت پیر بچل شاہ عرف مستان شاہ (گاڑی کھاتہ ، ایم اے جناح روڈ، کراچی) ١٢٩١ھ
٢٩ ذی الحجہ
٭ حضرت ابو عبداللہ سنجری ٢٥٥ھ ٭ حضرت سیدی ابو عبداللہ محمد سلامہ فضاعی ٤٥٤ھ ٭ حضرت خواجہ علیم الدین چشتی ٨٠٥ھ ٭ حضرت مرزا کامل بدخشی ١١٣٠ھ ٭ حضرت سید محمد کریم قول الارواح ١١٨٨ھ ٭ حضرت محمد ظہیر قاسمی چیچہ وطنی
٣٠ ذی الحجہ
حضرت ابو عمر بغدادی ١٨٧ھ
(رضی اللہ تعالیٰ عہنم اجمعین و رحمہما اللہ)
--
تحریر: علامہ نسیم احمد صدیقی مدظلہ عالی
منجانب: انجمن ضیائے طیبہ ، کراچی ، پاکستان
--
Shahzad Afzal
http://www.pakistanprobe.com
No comments:
Post a Comment