Wednesday, June 27, 2012

Hazrat Farooq-e-Azam Aur Sarkar SallAllaho Alaihi wa Sallam ki Gulami [URDU]


http://sphotos.ak.fbcdn.net/hphotos-ak-ash2/hs084.ash2/37528_416070320333_672380333_5290458_4836088_n.jpg
خلیفۃ المسلمین حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ کی ذات سے کون ناواقف ہے آپ نے اپنی حکومت میں بے شمار کارنامے انجام دے کر تاریخ میں ایک باب رَقم کیا آج کل کے دور میں جس طرح امریکہ نام نہاد سُپر پاور ہے اس دور میں قیصرو قصری سُپرپاور ہوا کرتی تھی قیصرو قصریٰ بھی آپ کے نام سے کانپتے تھے جِدھر آپ کی نگاہِ مبارک اُٹھ جائے وہ ملک فتح و نُصرت پاتا تھا۔ ہر طرف آپ کی عظمت کا جھنڈا لہرا رہا تھا ہر وہ طاقت جو اسلام اور مسلمانو ں کے خلاف اُٹھتی آپ نے اُسے نیست و نابود کردیا۔

https://fbcdn-sphotos-a.akamaihd.net/hphotos-ak-ash4/s720x720/388093_10150378899610334_700445837_n.jpg

ایک مرتبہ آپ نے ایک وفد بیت المقدّس بھیجا وہ وَفد کوئی عام آدمیوں کا نہیں بلکہ صحابہ کرام علیہم الرضوان کا وَفد تھا یہ وَفد بیت المقدّس پہنچا یہ اُس دور کی بات ہے جب بیت المقدّس پر پادریوں کا قبضہ تھا حضرت عمر بیت المقدّس کو پادریوں کے چُنگل سے آزاد کرانا چاہتے تھے۔ صحابہ کرام علیہم الرضوان نے پادریوں سے کہا کہ ہم امیر المومنین حضرت عمر فاروق کی جانب سے یہ پیغام لائے ہیں کہ تم لوگ جنگ کے لئے تیار ہوجاؤ۔ یہ سُن کر پادریوں نے کہا ہم لوگ صرف تمہارے امیر المومنین کو دیکھنا چاہتے ہیں کیونکہ جو نشانیاں ہم نے فاتح بیت المقدّس کی اپنی کتابوں میں پڑھی ہیں وہ نشانیاں ہم تمہارے امیر میں دیکھنا چاہتے ہیں۔ اگر وہ نشانیاں تمہارے امیر میں موجود ہوئیں تو ہم بغیر جنگ و جدل کے بیت المقدّس تمہارے حوالے کردیں گے یہ سُن کر مسلمانوں کا یہ وَفد حضرت عمر فاروق کی خدمت میں حاضر ہوااور سارا ماجرا آپ کو سُنایا۔

امیر المومنین حضرت عمر فاروق نے اپنا ستر پیوند سے لبریز جُبّہَ پہنا، عمامہ شریف پہنا اور جانے کے لئے تیار ہوگئے سارے صحابہ کرام علیہم الرضوان ، حضرت عمر سے عرض کرنے لگے حضور! وہاں بڑے بڑے لوگ ہوں گے، بڑے بڑے پادری ہوں گے آپ رضی اللہ تعالی عنہ اچھا اور نیا لباس پہن لیں۔ ہمارے بیت المال میں کوئی کمی نہیں۔

انسانی فطرت کا بھی یہی تقاضہ ہے کہ جب بندہ کوئی بڑی جگہ جاتا ہے تو وہ اچھا لباس پہنتا ہے تاکہ اُس کا وقار بلند ہو۔ مگر اﷲ اکبر! صحابہ کرام علیہم الرضوان کی یہ بات سُن کر فاروقِ اعظم رضی اللہ تعالی عنہ کو جلال آگیا اور فرمانے لگے کہ کیا تم لوگ یہ سمجھے کہ عمر کو عزت حکومت کی وجہ سے ملی ہے یا اچھے لباس کی وجہ سے ملی ہے؟ نہیں عمر کو عزت حضور کی غلامی کی وجہ سے ملی ہے آپ فوراً سواری تیار کر کے روانہ ہوگئے جیسے ہی آپ رضی اللہ تعالی عنہ بیت المقدّس پہنچے تو حضرت عمر فارقِ اعظم رضی اللہ تعالی عنہ کا حُلیہ مبارک دیکھ کر ، سرکار اعظم صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام کو دیکھ کر پادریوں کی چیخیں نکل گئیں اور حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے قدموں میں گِر پڑے اور ساری بیت المقدّس کی چابیاں حضرت عمر کے حوالے کردیں اور کہنے لگے کہ ہمیں آپ سے جنگ نہیں کرنی کیونکہ ہم نے جو حُلیہ فاتح بیت المقدس کا کتاب میں پڑھا ہے یہ وہی حُلیہ ہے اس طرح بغیر جنگ کے بیت المقدّس آزاد ہوگیا۔

اُن کے جو غلام ہوگئے
وقت کے امام ہوگئے
نام لیوا اُن کے جو ہوئے
اُن کے اُونچے نام ہوگئے

https://fbcdn-sphotos-a.akamaihd.net/hphotos-ak-ash3/8427_167119935333_6659004_n.jpg

دریائے مصر غلامِ مصطفی صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کے اشاروں پر

درِ مصطفی کے غلام امیر المومنین سیّدنا فاروقِ اعظم رضی اللہ تعالی عنہ کے دورِ خلافت میں مصر کا دریائے نیل خشک ہوگیا۔ مصری رعایا مصر کے گورنر صحابی رسول حضرت عمر بن العاص رضی اللہ تعالی عنہ کی خدمت میں فریاد لے کر حاضر ہوئی اور عرض کی کہ اے امیر! ہمارا یہ دستور تھا کہ جب دریائے نیل خشک ہوجاتا تھا تو ہم لوگ ایک خوبصورت کنواری لڑکی کو دریا میں زندہ درگور کرکے دریا کی بھینٹ چڑھایا کرتے تھے اس کے بعد دریا پھر جاری ہوا کرتا تھا اب ہم کیا کریں؟

گورنر نے فرمایا کہ اﷲ تبارک و تعالیٰ اور اسکے رحمت والے رسول کا رحمت بھرا دینِ اسلام ہرگز ہرگز ایسے ظالمانہ اور جاہلانہ فعل کی اجازت نہیں دیتا تم لوگ انتظار کرو میں امیر المومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ کو خط لکھتا ہوں وہاں سے جو حکم ملے گا اس پر عمل کیا جائے گا۔

چنانچہ گورنر کاقاصد مدینہ الرسول صلی اللہ علیہ وسلم آیا اور دریائے نیل خشک ہونے کا حال سُنایا۔ امیر المومنین حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ یہ خبر سُن کر نہ گھبرائے نہ پریشان ہوئے۔ حضرت عمر قاصد کو یہ کہہ کر بھی روانہ کرسکتے تھے کہ تم لوگ قرآن مجید کی تلاوت کرو، نوافل پڑھو اور اﷲ تعالیٰ سے دُعا کرو کہ اﷲ تعالیٰ دریائے نیل کو دوبارہ جاری فرمادے میں تو تمہاری طرح کا ایک انسان ہوں میرے پاس کیوں آئے ہو بس دُعا کرو عبادت کرو اﷲ تعالیٰ تمہارے حال پر رحم فرما کر دریائے نیل دوبارہ جاری فرمادیگا۔ حضرت عمر نے قاصد سے یہ نہ کہا بلکہ نہایت ہی سکون اور اطمینان کے ساتھ ایک ایسا تاریخی خط لکھا جیسے کوئی انسان دوسرے انسان کو خط لکھ کر اُس سے مُخاطب ہوتا ہے ایسا تاریخی خط دریائے نیل کے نام لکھا جو تاریخ ِ عالم میں بے مثل و بے مثال ہے ۔

الیٰ نیل مصر من عبداﷲ عمر بن الخطاب: ام بعد فان کنت تجری بنفسک فلا حاجۃ لنا الیک وان کنت تجری باﷲ فانجر علی اسم اﷲ۔
اے دریائے نیل ! اگر تو خود بخود جاری ہوا کرتا تھا تو ہم کو تیری کوئی ضرورت نہیں ہے اور اگر تو اﷲ تعالیٰ کے حکم سے جاری ہوتا تھا (تو میں امیرالمومنین ہو کر تجھ کو حکم دیتا ہوں) کہ تو پھر اﷲ تعالیٰ کے نام پر جاری ہوجا۔ (بحوالہ ، کتاب: ازالۃ الخفاء جلد دوئم صفحہ نمبر 166)

امیر المومنین حضرت عمر فاروق نے اس خط کو لفا فے میں بند کرکے قاصد کو دیا اور فرمایااس کو دریائے نیل میں ڈال دیا جائے چنانچہ جوں ہی آپ کا خط دریائے نیل میں ڈالا گیا تو دریا فوراً جاری ہوگیا اور ایسا جاری ہوا کہ آج تک خشک نہیں ہوا۔

چاہیں تو اشاروں سے اپنی کا یا ہی پلٹ دیں دنیا کی
یہ شان ہے ان کے غلاموں کی سردار کا عالم کیا ہوگا

اﷲ اکبر! یہ دریا کب سے خط پڑھنا سیکھ گیا جو حضرت عمر کے خط کو پاتے ہی آپ کے حکم کو پاتے ہی جاری ہوگیا میر ی سمجھ میں بات یہی آتی ہے کہ حضرت عمر اپنے آقا کے ایسے سچّے غلام تھے کہ آپ کا حکم دریاؤں پر بھی چلتا تھا۔

https://fbcdn-sphotos-a.akamaihd.net/hphotos-ak-snc7/s720x720/302033_10150378895100334_1491140265_n.jpg

حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کی زمین پر حکمرانی

حضرت علامہ عبدالوہاب شعرانی علیہ الرحمہ اپنی کتاب طبقات الشافعیہ میں نقل فرماتے ہیں کہ امیر المومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ کی خلافت کے دور میں مدینے شریف میں ایک شدید زلزلہ آیا اور زمین ہلنے لگی۔ امیر المومنین حضرت عمر فاروق کچھ دیر خدا تعالیٰ جل جلا لہ' کی حمد و ثناء کرتے رہے مگر زلزلہ ختم نہ ہوا۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ یہ کہہ سکتے تھے کہ اے مدینے والو! آیتِ کریمہ پڑھو ، سورہ یٰس پڑھو ، توبہ و استغفار کرو کیونکہ زلزلہ گناہوں کی وجہ سے آتا ہے ۔ یہ اﷲ تعالیٰ کا عذاب ہے آپ رضی اﷲ عنہ نے یہ نہ کہا۔

اﷲ اکبر! غلامِ مصطفی ہو تو ایسا ہو زمین پر حکمرانی ہو تو ایسی ہو آپ رضی اللہ تعالی عنہ جلال میں آگئے اور آپ نے اپنا دُرّہ زمین پر مار کر فرمایا

اقدّی الم اعدل علیک قلتقرت من وقتھا
اے زمین ساکن ہو جا کیا میں نے تیرے اُوپرانصاف نہیں کیا ہے؟

یہ فرماتے ہی فوراً زلزلہ ختم ہوگیا اور زمین ٹھہر گئی۔ (بحوالہ کتاب:ازالۃ الخلفاء ، صفحہ نمبر ١٧٢ ، جلد دوئم)

علماء فرماتے ہیں کہ اس وقت کے بعد سے پھر کبھی مدینے شریف کی زمین پر زلزلہ نہیں آیا۔

سورج پر غلامِ مصطفی صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کا حکم

ایک دفعہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ کپڑا سی رہے تھے سورج نے گرمی دکھائی تو حضرت عمرِ فاروق رضی اللہ تعالی عنہ نے سورج کو فرمایا

محمد کے غلاموں سے تیزی؟

تو سورج نے گرمی سمیٹ لی۔ (بحوالہ کتاب:بحر العلوم شرح مثنوی ١٢)

یہ زمین اور سورج کو کس نے بتادیا کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ اﷲ تعالیٰ کے محبوب کے غلام ہیں یہ تمہیں اشارہ کریں تو رُک جانا ۔ وجہ یہی ہے کہ جب بندہ محبوبِ کبریا کا سچّا غلام بن جائے تو اﷲ تعالیٰ کائنات کی ہر چیز کو اس کا فرمانبردار بنا دیتا ہے۔

https://fbcdn-sphotos-a.akamaihd.net/hphotos-ak-snc7/s720x720/316205_10150293673245334_364961929_n.jpg
 
— — —
تحریر: مولانا شہزاد قادری ترابی حفظہ اللہ تعالی
کتاب: سرکار اعظم صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی پر اللہ کا انعام

..:: Follow us on ::..
 
http://www.jamiaturraza.com/images/Youtube.jpghttp://www.jamiaturraza.com/images/Twitter.jpghttp://www.jamiaturraza.com/images/Facebook.jpg


--
Shahzad Afzal
http://www.pakistanprobe.com


Read more >>

Monday, June 25, 2012

The Importance of Fiqh and Excellence of a Faqih


Fiqah refers to Islamic Jurisprudence and is the explanation of the Shariah in the light of the Qur'an and Sunnah. There are four well-known schools of Jurisprudence, namely; Hanafi; Shafi'i; Hambali and Maliki. Fiqh plays a very important part in the life of every Muslim. The learned Jurists (Fuqaha) have derived the important rulings of the Shariah based on the commands of Qur'an and Sunnah. The importance of Fiqh and the excellence in understanding the Deen has been mentioned clearly in the Holy Qur'an and the Hadith.

Shafi'i, Malik, Ahmad, Imam-e-Hanif;
Chaar Baag-e-Imamat pe Laakhon Salam

Blessed Grave of Imam al-Azam Abu Hanifa Radi Allahu Ta'ala Anhu in Baghdad Sharif, Iraq.
 
Fiqh in the Light of the Qur'an al-Karim

Intellect, acumen and understanding are great blessings of Allah. It is necessary for a Muslim to be blessed with these if he wishes to understand the Holy Qur'an, The Hadith, and the secrets and laws that have been mentioned therein.

Almighty Allah says

إن في ذلك لآيات لقوم يعقلون
'Verily, in it are signs for those who understand' [Surah al-Rome, Verse 24]

In another verse of the Holy Qur'an Allah SubHanuhu wa Ta'ala says

إن في ذلك لآيات لقوم يتفكرون
'Verily, in it are signs for those who deliberate.' [Surah al-Rome, Verse 21]

Almighty Allah says

وتلك الأمثال نضربها للناس لعلهم يتفكرون
'And We present these examples for the people, so that they may contemplate' [Surah al-Hashr, Verse 21]

Allah SubHanuhu wa Ta'ala says

قد فصلنا الآيات لقوم يفقهون
'Undoubtedly, we have explained the signs in detail; for those who understand.' [Surah al-An'aam Verse 98]

The above mentioned verses of the Holy Qur'an make it very clear that to attain Tafaqquh fid Deen, i.e. proper understanding and appreciation of the Deen; one has to be blessed with intellect and the capability to understand.

Those who have been blessed with the knowledge of Deen and especially with the knowledge of Fiqh are those who have been bestowed with special blessings by Allah SubHanuhu wa Ta'ala.

The Holy Qur'an makes it very clear that those with knowledge and those who are unaware are not alike. Almighty Allah says

قل هل يستوي الذين يعلمون والذين لا يعلمون إنما يتذكر أولو الألباب
'(O Beloved) Say you; Are those who know and those who know not equal? Surely, it is the wise alone that recognize the guidance.' [Surah al-Zumar, Verse 9]

Almighty Allah says:
 
ومن يؤت الحكمة فقد أوتي خيرا كثيرا
'And he, who has been blessed with wisdom, has surely been blessed with great virtue.' [Surah al-Baqarah, Verse 269]

It must be noted that the Mufasireen (commentators of the Qur'an) have mentioned that wherever in the Qur'an the mention of Wisdom has come, it refers to the knowledge of Fiqh. The importance of Fiqh, i.e. understanding the Deen is also evident from this verse of the Holy Qur'an.

Almighty Allah says

فلولا نفر من كل فرقة منهم طائفة ليتفقهوا في الدين ولينذروا قومهم إذا رجعوا إليهم لعلهم يحذرون
'And it is not possible for all the believers to go out (at once); Then why should a delegation not come forth from every grouping, so that they may attain the understanding of Religion, thereafter returning to their people, warning them, in the hope that they may remain guarded. [Surah al-Tawbah, Verse 122]

Whilst explaining this verse of the Holy Qur'an, Sadrul Afaadil Allama Sayyid Na'eemud'deen Muradabadi Alaihir raHma wa ar-Ridwan says:

'It is not necessary for every person to become an Aalim or Faqih. However, every individual has to attain sufficient knowledge to be able to differentiate between that which is lawful and unlawful, and to know what Fard is and what Waajib is. To acquire this amount of knowledge is Fard-e-'Ain upon every Muslim, and to acquire more knowledge than this is Fard-e-Kifaayah. It has been mentioned in the Hadith, that it is Fard upon every Muslim to acquire knowledge (of Deen).' [Tafseer Khazain al-Irfan]

Blessed Grave of  Imam Maalik Ibn Anas Radi Allahu Ta'ala Anhu in Baqi Sharif.
 
The Excellence of a Faqih in the Light of Hadith

Up to now, we have mentioned the importance of Fiqh in the light of the Holy Qur'an. This has been further explained and clarified in the Hadith Sharif.

Hadrat Sayyiduna Ameer Mu'awiyah Radi Allahu Ta'ala Anhu has reported that the Beloved Prophet (Peace and Blessings of Allah be Upon Him) said:

من يرد الله به خيرا يفقهه في الدين
'If Allah wills to bestow someone with special virtue; He makes him a Faqih of the Religion'.

Sahih Bukhari, Volume 1, Chapter 13, Page 137, Hadith 71
Sahih Muslim, Volume 6, Chapter 34, Page 396, Hadith 2439
Mishkat al-Masabih, Volume 1, Page 43, Hadith 200

Hadrat Abu Hurairah Radi Allahu Ta'ala Anhu reported that Rasoolullah SallAllaho Alaihi wa Aalihi wa Sallam said:

خيارهم في الجاهلية خيارهم في الإسلام إذا فقهوا
'Those who were good in the days of ignorance are also good in Islam, if they have understanding of the Deen.'

Sahih Bukhari, Volume 12, Chapter 8, Page 20, Hadith 3353
Sahih Muslim, Volume 15, Chapter 44, Page 450, Hadith 6311
Mishkat al-Masabih, Volume 1, Page 43, Hadith 201

In this Hadith, Rasoolullah SallAllaho Alaihi wa Aalihi wa Sallam mentioned that people are bestowed with being better, on the basis of Fiqh, i.e. on the basis of their understanding of their Deen. This also proves that according to Rasoolullah SallAllaho Alaihi wa Aalihi wa Sallam, one of the best qualities in a person is for him to have knowledge of Fiqh.

Once the Holy Prophet (Peace and Blessings of Allah be Upon Him) made the following Dua for Hadrat Abdullah ibn 'Abbas Radi Allahu Ta'ala Anhu by saying:

اللهم فقهه في الدين
'O Allah! Make him a Faqih of the Religion.'

Sahih Bukhari, Volume 1, Chapter 10, Page 260, Hadith 143
Sahih Muslim, Volume 16, Chapter 45, Page 195, Hadith 6523
Mishkat al-Masabih, Volume 3, Page 340, Hadith 6139

Hadrat Ibn 'Abbas Radi Allahu Ta'ala Anhu says that Rasoolullah SallAllaho Alaihi wa Aalihi wa Sallam said

فقيه واحد أشد على الشيطان من ألف عابد
'One Faqih is more superior over shaitaan, than a thousand worshippers.'

Sunan Tirmidhi, Volume 10, Chapter 19, Page 203, Hadith 2897
Sunan Ibn Majah, Volume 1, Chapter 39, Page 267, Hadith 227
Mishkat al-Masabih, Volume 1, Page 47, Hadith 217

From this Hadith it is evident that a single Faqih (Jurist) is more powerful over shaitaan, than a thousand devout worshippers. The reason for this is that due to the knowledge which Almighty Allah has bestowed upon him, and due to his understanding of the Deen, he is able to recognise and avoid the traps and the trickery of shaitaan. In reality, he becomes the one who assist others to be protected from the trickery and deception of shaitaan.


Blessed Grave of Imam Muhammad ibn Idris al-Shafi'i Radi Allahu Ta'ala Anhu in al-Fustat, Egypt.

In Ilm al-Hadith, there are two things that are fundamental. The first being, the authenticity of the chain of transmission, and its narration; and the second being its meaning and understanding it. The Muhaditheen of the Ummah memorised and preserved the words and chain of transmission of the Hadith, whereas the distinguished Fuqaha carried the responsibility of understanding its true meaning and wisdom. It should also be noted that the distinguished Fuqaha also have complete expertise and proficiency in the subject of Hadith. One incident pointing to the importance and excellence of the Fuqaha is as follows:

Khateeb Baghdadi Alaihir raHma wa ar-Ridwan mentions that a Group of Muhaditheen were present, when a woman who used to bathe deceased females came forth and asked a question, 'Can a female who is menstruating give Ghusl to a female who has passed away or not?'

Imam Yahya bin Mu'een, Abu Hatheema, Zuhair bin Harb, and Khalf bin Saalim etc. who are regarded amongst distinguished Muhaditheen were present there. Each one of them began to look at the other, and none of them was able to give an answer immediately. At that time, Imam Abu Thaur who with the exception of being a Muhadith; was also a Mujtahid and a Faqih, passed by. The lady approached him and queried regarding the said issue. He said 'Yes, a female who is menstruating is permitted to give Ghusl to a deceased female.' The reason being that once Rasoolullah SallAllaho Alaihi wa Aalihi wa Sallam said to Hadrat A'isha Radi Allahu Ta'ala Anha:

حيضتك ليس في يدك
'Your menstruation is not in your hand'.

It is also mentioned in the Hadith that whilst in the condition of Haidh, Hadrat A'isha Radi Allahu Ta'ala Anha used to sprinkle water in the hair of the Prophet (Peace and Blessings of Allah be Upon Him) and she would comb a path in his hair. So, if in such a condition, water can be poured onto the head of a living person, why then can a deceased not be given Ghusl?'

When the distinguished Muhaditheen heard this Fatwa of Imam Abu Thaur they began to discuss the chain of transmission of the Hadith he had mentioned, mentioning who its narrators were and how it was narrated. When the woman heard this, she said 'Where were you all this while?' In other words, she tried to say that if that were the case, why then did they not give the answer'. [Tareekh-e-Baghdad, Volume 6, Page 67]

Blessed Grave of Imam Ahmad Ibn Hanbal Radi Allahu Ta'ala Anhu in Baghdad, Iraq.

— — —

Excerpted from

'Imam-e-Azam Abu Hanifa' by
Allama Sayyid Shah Turab al-Haq Qadiri

..:: Follow us on ::..

http://www.jamiaturraza.com/images/Youtube.jpghttp://www.jamiaturraza.com/images/Twitter.jpghttp://www.jamiaturraza.com/images/Facebook.jpg
 




--
Shahzad Afzal
http://www.pakistanprobe.com


Read more >>

Friday, June 22, 2012

The Greatest Imam | Sayyiduna Imam al-Aa'zam Abu Hanifa Radi Allahu Ta'ala Anhu

The Greatest Imam (al-Imam al-Aa'zam)
Abu Hanifa Nau'man Ibn Thabit Radi Allahu Anhu

  
https://fbcdn-sphotos-a.akamaihd.net/hphotos-ak-prn1/12938_176057760333_2453301_n.jpg

Imam al-A'zam Abu Hanifa's (Alaihir raHma) full name was Nuʿman ibn Thabit ibn Zuta ibn Marzuban. He was born in Kufa in Iraq in 80 A.H. He belonged to the pious period of the Taabi'ins (Successors of the Sahabas).

DIVINE MISSION

It is stated in a Hadith Shareef which Imam al-Harizmi reported from Sayyiduna Abu Hurayrah (Radi Allahu Anhuma) that Sayyiduna Rasoolullah (SallAllahu Alaihi wa Sallam) said: "Among my Ummah, there will come a man called Abu Hanifa. On the Day of Resurrection, he will be the light of my Ummah." Another Hadith Shareef states: "In every century, a number of my Ummah will attain to high grades. Abu Hanifa will be the highest of his time." These two Ahadith are recorded in "Durr al-Mukhtar."

https://fbcdn-sphotos-a.akamaihd.net/hphotos-ak-prn1/12938_176057770333_3686485_n.jpg

EARLY LIFE

While still in his youth, he met great Sahaba like Sayyiduna Anas bin Maalik, Sayyiduna Sahl bin Saad and Sayyiduna Abul Tufail Amir bin Wathilah (radi Allahu Anhumul Ajma'een). Imam A'zam Abu Hanifa (Alaihir raHma) was first brought up as a trader, but soon started taking deep interest in Islamic learning.

EDUCATION

He attended the lectures of Sayyiduna Hammad Basri (radi Allah anhu) in Fiqh and then began to study the Hadith. He learnt under great scholars in Kufa. In Basrah he studied under two great Taabi'ie scholars who had learnt Hadith under the Sahaba. In Makkatul Mukarammah and Madinatul Munawwarah, he learnt under Sayyiduna Ata bin Abi Rabah and Sayyiduna Ikramah (radi Allahu Anhuma). In fact, Imam A'zam Abu Hanifa (Alaihir raHma) had numerous teachers. Some historians say that he learnt Hadith from about 4000 scholars. Some of his famous teachers were:

Sayyiduna Imam Baaqir
Sayyiduna Imam Jafer Saadiq
Sayyiduna Ali
Sayyiduna Abu Hurayrah
Sayyiduna Abdullah ibn Mas'ud
Sayyiduna Abdullah ibn Umar
Sayyiduna Aqabah bin Umar
Sayyiduna Safwaan
Sayyiduna Jabir
Sayyiduna Abu Qatadah and etc. (Radi Allahu Anhum Ajma'een).

http://a3.sphotos.ak.fbcdn.net/hphotos-ak-snc4/38036_412479710333_672380333_5188322_3735770_n.jpg

AS A TEACHER

When his teacher, Sayyiduna Hammad Basri (Alaihir raHma) passed away, Imam A'zam Abu Hanifa (Alaihir raHma) was 40 years old and he began teaching. He became very famous and travelled many places. Students from all over the Muslim world came to him to listen to his lectures, interviews and debates. Imam Maalik (Alaihir raHma) also learnt under him. When he was 56 years old, Caliph Mansur came to power after the Ummayad dynasty was overthrown by the Abbasids in 132 A.H. Since Imam Abu Hanifa (Alaihir raHma) opposed the Caliph's ruthless killing of the Ahle Bait, he was arrested. The Caliph offered the Imam the post of a Qaadi (Judge), but he refused. The Caliph Mansur had him beaten with a stick 30 strokes. His feet bled. Caliph Mansur repented and offered Imam A'zam Abu Hanifa (Alaihir raHma) 30000 pieces of silver. The great Imam refused once more. He was imprisoned again and thrashed 10 more strokes every day.

PASSES AWAY


Imam A'zam Abu Hanifa (Alaihir raHma) passed away while in Salaah. He had been poisoned by the orders of Caliph Mansur. His Janaza Salaah was performed six times and each time 50 000 people took part. People continued to come and pray for him for 20 days after he was buried. He was 70 years old. In 459 A.H. a Mazaar (Tomb) was built for him by the Seljuki ruler Alp Arsalan. He lies buried in a Tomb situated near Baghdad in Iraq.

http://a5.sphotos.ak.fbcdn.net/hphotos-ak-snc6/38335_412294285333_672380333_5183905_4807369_n.jpg

STUDENTS

Imam A'zam Abu Hanifa (Alaihir raHma) left behind about 980 students. The most famous among them being:

a. Sayyiduna Qadi Abu Yusuf (Alaihir raHma)
b. Sayyiduna Imam Muhammed (Alaihir raHma)
c. Sayyiduna Imam Zufur (Alaihir raHma)

PERSONALITY

Imam A'zam Abu Hanifa (Alaihir raHma) earned his living by trading. Every Friday, he distributed 20 gold coins to the poor for his parents soul. For 40 years Imam A'zam Abu Hanifa (Alaihir raHma) performed the Fajr Salaah with the Wudu that he made for the Esha Salaah (ie. he did not sleep after the night prayer). He performed Hajj 55 times. He used to recite the entire Holy Quran once every day and once every night. Imam A'zam Abu Hanifa (Alaihir raHma) had so much of Taqwa (Piety) that for 30 years he fasted every day (except for the 5 forbidden days). He often read the Holy Quran in one rakaah or two. He did not accept any presents from anyone. He wore clothes like those of the poor. Imam A'zam Abu Hanifa (Alaihir raHma) once said: "I laughed once in my life and I regret it." He talked little and thought much. It is said that at the place where his soul was taken, he read the Holy Quran 7000 times.

https://fbcdn-sphotos-a.akamaihd.net/hphotos-ak-snc6/34685_412479915333_2208523_n.jpg

GREATNESS OF IMAM ABU HANIFA

Yahya ibn Sa`id al-Qattan said:

"We have not heard better than Abu Hanifa's opinion and we have followed most of his positions."

 Yahya ibn Ma`in, he said of Abu Hanifa that

"He is not only thiqa (trustworthy) but thiqa thiqa. Al- Dhahabi even calls Ibn Ma`in a fanatic Hanafi."

Al-Fadl ibn Dukayn, one of the major authorities of Ahl al-Hadith. He said:

"Muslims should make du`a to Allah on behalf of Abu Hanifa in their prayers, because the Sunan and the fiqh were preserved for them through him."

Waki` ibn al-Jarrah, he replied to some of them:

"You barred us from Abu Hanifa, are you going to bar us from Zufar??" (Zufar took over the teaching of Hanafi Fiqh in Kufa and Basra after the Imam.)

Abu Mu`awiya al-Darir, he said:

"Love of Abu Hanifa is part of the Sunnah".

https://fbcdn-sphotos-a.akamaihd.net/hphotos-ak-ash4/38177_412294665333_3493158_n.jpg
Ibn Dawud al-Khuraybi:

"Among the people there are plenty of enviers and ignorant ones concerning Abu Hanifa."

Bishr al-Hafi, he said:

"None criticizes Abu Hanifa except an envier or an ignoramus".

 Ibn al-Mubarak. When al-Awza`i criticized Abu Hanifa, Ibn al-Mubarak copied a compilation of Abu Hanifa's fiqh under the name al-Nu`man. Al- Awza`i read it without interruption except for Salat al-Fard. Then he said:

"This Nu`man is a grand master (hadha nabilun min al-ashyakh). Go to him and take as much as you can from him!" Ibn al-Mubarak said: "This is the Abu Hanifa you had forbidden me to see." (Tarikh al-Baghdad)

Ibn al-Mubarak considered one's hatred of Abu Hanifa a mark of Divine wrath.

He also said:

"If Allah had not rescued me with Abu Hanifa and Sufyan [al-Thawri] I would have been like the rest of the common people." Al-Dhahabi relates it as: "I would have been an innovator."

Ibn `A'isha mentioned a fatwa of Abu Hanifa then said:

"Truly, if you had seen him you would have wanted him ! Truly, his similitude and yours is as in the saying:

Curse them much or not, I care little to blame you;
But fill - if you can! - the space they left vacant."

https://fbcdn-sphotos-a.akamaihd.net/hphotos-ak-snc7/34322_412480120333_1928419_n.jpg
 
GOLDEN WORDS OF WISDOM:
  • Knowledge without deeds is like a body without a soul. As long as knowledge does not embrace the existence of action it will not be enough not agreeable nor sincere.
  • Difficulties are the result of sin. The sinful therefore does not have the right to lament when difficulties befall him.
  • To reduce the connection of the World means that a person takes that which is essential from the World and leaves that which is non essential.
  • That person who seeks knowledge to attain the World finds that knowledge has no place in his heart.
  • That person whose knowledge does not prevent him from committing sin and transgressions then who is that person who has suffered or incurred a greater loss than him.
  • For the attainment of knowledge satisfaction is useful and satisfaction is not gained by increasing information but by decreasing it.

http://a3.sphotos.ak.fbcdn.net/hphotos-ak-snc6/169090_501715610333_672380333_6813841_5655561_n.jpg
Mawlid an-Nabawi Sharif Celebrations at the Mosque of Imam al-Aa'dham Abu Hanifa
Nau'man Ibn Thabit Radi Allahu Ta'ala Anhu in Aa'dhamiya, Baghdad Sharif, Iraq

..:: Follow us on ::..

http://www.jamiaturraza.com/images/Youtube.jpghttp://www.jamiaturraza.com/images/Twitter.jpghttp://www.jamiaturraza.com/images/Facebook.jpg


--
Shahzad Afzal
http://www.pakistanprobe.com


Read more >>

Sunday, June 17, 2012

Fazail-e-Shab-e-Me'raj Sharif wa Youm-e-Be'sat-e-Nabawi SallAllaho Alaihi wa Sallam [URDU]



Black heart (cards) فضائل شب معراج شریف Black heart (cards)
یوم بعثت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم


http://a5.sphotos.ak.fbcdn.net/hphotos-ak-ash4/263125_10150212659455334_672380333_7776762_3555355_n.jpg
 
 
بیہقی شعب الایمان اور دیلمی نے مسند الفردوس میں سلمان فارسی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے مرفوعاً روایت كی:
 
فی رجب یوم ولیلة من صام ذٰلك الیوم وقام تلك اللیلة كان كمن صام من الدهر مائة سنة وقام مائة سنة وھو  لثلث بقین من رجب وفیه بعث اﷲ تعالٰی محمدا صلی اﷲ تعالٰی علیه وسلّم۔
رجب میں ایک دن اور رات ہے جو اس دن كا روزہ ركھے اور وُہ رات نوافل میں گزارے سَو برس كے روزوں اور سَو برس كے شب بیداری كے برابر ہو، اور وہ ۲۷رجب ہے اسی تاریخ اﷲ عزوجل نے محمد صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم كو مبعوث فرمایا۔

الفردوس بمأثور الخطاب حدیث ٤۳۸۱ دارالكتب العلمیہ بیروت ۳ /۱٤۲
شعب الایمان حدیث ۳۸۱۱ دارالكتب العلمیہ بیروت ۳ /۳۷٤

نیز اسی میں بطریق ابان بن عیاش حضرت انس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے مرفوعاً مروی:

فی رجب لیلة یكتب للعامل فیھا حسنات مائة سنة، وذٰلك لثلٰث بقین من رجب فمن صلی فیه اثنتی عشرة ركعة یقرأ فی كل ركعة فاتحة الكتاب وسورة من القرأن، ویتشھد فی كل ركعة ویسلم فی اٰخرهن، ثم یقول، سبحٰن اﷲ والحمدﷲ ولاالٰہ الااﷲ واﷲ اكبر مائة مرة ویستغفر اﷲ مائة مرة ویصلی عن النّبی صلی اﷲتعالٰی علیہ وسلم مائة مرة ویدعو لنفسہ ماشاء من امر دنیاه واٰخرته ویصبح صائما فان اﷲ یستجیب دعاء كلہ الاان یدعوفي معصیة۔
رجب میں ایک رات ہے كہ اس میں عمل نیك كرنے والے كو سَو برس كی نیكیوں كا ثواب ہے اور وہ رجب كی ستائیسویں شب ہے جو اس میں بارہ ركعت پڑھے ہرركعت میں سورہ فاتحہ اور ایك سورت، اور ہر دوركعت پر التحیات اور آخر میں بعد سلام سبحن اﷲ والحمد ﷲ ولاالٰہ الا اﷲ واﷲ اكبرسو بار، استغفار سَو بار، درود سو بار، اور اپنی دنیا وآخرت سے جس چیز كی چاہے دعا مانگے اور صبح كو رزہ ركھے تو اﷲ تعالیٰ اس كی سب دعائیں قبول فرمائے سوائے اس دُعا كے جو گناہ كے لیے ہو۔ (شعب الایمان حدیث ۳۸۱۲۱ دارالكتب العلمیہ بیروت ۳ /۳۷٤)

فوائد ہناد میں انس رضی اﷲ تعالٰی عنہ سے مروی:

بعث نبیا فی السابع والعشرین رجب فمن صام ذٰلك الیوم ودعا عند افطارہ كان لہ كفارة عشر سنتین۔
۲۷ رجب كو مجھے نبوت عطا ہُوئی جو اس دن كا روزہ ركھے اور افطار كے وقت دُعا كرے دس برس كے گناہوں كا كفارہ ہو۔ (تنزیه الشریعة بحوالہ فوائد ہناد كتاب الصوم حدیث ٤۱ دارالكتب العلمیة بیروت ۳ /۱٦۱)

جزء ابی معاذ مروزی میں بطریق شہر ابن حوشب ابوھریرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے موقوفاً مروی:

من صام یوم سبع وعشرین من رجب كتب اﷲ له صیام ستین شھرا وھو الیوم الذی هبط فیه جبریل علی محمد صلی اﷲ تعالٰی علیه وسلم بالرسالة۔
جو رجب كی ستائیسویں كا روزہ ركھے تو اﷲ تعالیٰ اس كے لیے ساٹھ مہینوں كے روزوں كا ثواب لكھے، اور وُہ وُہ دن ہے جس میں جبریل علیہ الصلٰوة والسلام محمد صلّی اﷲ تعالیٰ علیہ و سلم كے لیے پیغمبری لے كر نازل ہُوئے۔ (تنزیه الشریعة بحوالہ جزء ابی معاذ كتاب الصوم حدیث ٤۱ دارا لكتب العلمیه بیروت ۳ /۱٦۱)

تنزیه الشریعة سے ماثبت من السّنة میں ہے:

وھذا أمثل ما ورد فی ھذا المعنی۔
یہ اُن سب حدیثوں سے بہتر ہے جو اس باب میں آئیں۔ بالجملہ اس كے لیے اصل ہے اور فضائلِ اعمال میں حدیثِ ضعیف باجماعِ ائمہ مقبول ہے واﷲتعالٰی اعلم۔

تنزیه الشریعة بحوالہ جزء ابی معاذ كتاب الصوم حدیث ٤۱ دارا لكتب العلمیہ بیروت ۳ /۱٦۱
ما ثبت بالسنة مع اردو ترجمہ ذكرماہِ رجب ارادہ نعیمیہ رضویہ لال كھوہ موچی گیٹ لاہور ص ۲۳٤

http://a1.sphotos.ak.fbcdn.net/hphotos-ak-snc6/270877_10150212659070334_672380333_7776757_2123253_n.jpg
 

— — —
تحقیق: اعلیٰ حضرت الشاہ امام احمد رضا خان علیہ الرحمۃ والرضوان
کتاب: العطایا النبویہ فی الفتاوی الرضویہ ، جلد ۱۰ ، صفحہ ٦٤۷

..:: Follow us on ::..

http://www.jamiaturraza.com/images/Youtube.jpghttp://www.jamiaturraza.com/images/Twitter.jpghttp://www.jamiaturraza.com/images/Facebook.jpg


--
Shahzad Afzal
http://www.pakistanprobe.com


Read more >>